خیبرپختونخوا میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے مزید کچھ کہنے کی اس لئے گنجائش نہیں کہ اب یہ نوشتہ دیوار ہے عوام کی حفاظت میں پولیس کس قدر کامیاب ہے اور کس قدر ناکامی کا شکار ہے اس کا تجزیہ اور اصلاح کی ذمہ داری ہم پولیس کے اعلیٰ حکام پر چھوڑدیتے ہیںلیکن آئے روز پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہریوں سے بدسلوکی کے جو واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں اس صرف نظر ممکن نہیں پولیس کے رویئے سے ویسے تو عوام ہمیشہ شاکی رہتے ہیں اور تھانوں کے اندر شہریوں کی جانب سے کسی بھی معاملے پر شکایت ‘ ایف آئی آر کے اندراج کے لئے جانے کے بعد متعلقہ عملے کی جانب سے ٹال مٹول کوئی نئی بات نہیں بلکہ عوام کو ہمیشہ متعلقہ عملے کی جانب سے ٹرخانے کی پالیسی سے لوگ ہمیشہ حرف شکایت زبان پر لاتے رہتے ہیں بہت کم ایسے پولیس حکام ہونگے جن کا رویہ متعلقہ شکایت کنندگان کے نزدیک قابل رشک کے زمرے میں آسکتا ہے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں اپنی سرکاری ذمہ داری سے عہدہ برآء ہونے والے پولیس حکام اور ماتحت عملہ عوام کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیںوہی پولیس کے عمومی رویئے کی غما ز ہے یہ درست ہے کہ کسی بھی ادارے یامحکمے میں سب ایک طرح کے لوگ نہیں ہوتے ‘ اس لئے پولیس کے محکمے میں بھی اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوسکتے ہیںالبتہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اصولی طور پر یہ شرح برعکس ہونی چاہئے تھی عوام کی جانب سے پولیس کے مبینہ عمومی(منفی) رویئے کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کی اشد ضرورت ہے پولیس کا کام عوام کی حفاظت اور داد رسی ہے اور انہیں سرکاری وردی اس لئے نہیں دی جاتی کہ وہ اس کا کسی بھی طور پر فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو شکایات کا موقع فراہم کریں ‘ متعلقہ حکام اپنے زیر کمان عملے کی اخلاقی تربیت کے لئے ضروری اقدام اٹھائیں اور عوامی شکایات کاازالہ کیا جائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام نہ صرف ان شکایات کا نوٹس لے کر ازالہ کرنے کی ذمہ داری نبھائیں گے بلکہ بہتر یہی ہوگا کہ پولیس میں بھرتی کے وقت ماہرین نفسیات کی مدد سے متشدد اور غیر مہذب قسم کے افراد کی پولیس میں انتخاب ہی کو ناممکن بنایا جائے گا نیز پولیس ٹریننگ کے دوران تحمل و برداشت اور مہذب رویہ اختیار کرنے کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔
