چین میں پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات میں پیشرفت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان سے سفارتی تعلقات بڑھانے کا عندیہ دیاگیا ہے جبکہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کا یہ اشارہ کہ افغانستان اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کے پاکستانی مطالبے پر ییشرفت کر رہا ہے جوونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد رہا ہے ۔ افغانستان سے تعلقات میں بہتری کی تجویز چین نے دی تھی اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ اصولی طور پر افغانستان اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ملک میں سفیر بھیجنے پراتفاق کرلیا ہے۔خوش آئند امر یہ ہے کہ کابل میں 19اپریل کو ہونے والی گزشتہ ملاقات کے فیصلوں پر بھی مکمل عملدرآمد ہو چکا ہے۔2022اور 2023 میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ٹرانس ریلوے منصوبے پر جوفیصلہ کیا گیا تھا اسے بھی عملی جامہ پہنانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے چین اس منصوبے میں مالی معاونت پر آمادہ ہے اور جون کے پہلے ہفتے میں ازبکستان میں دستخط متوقع ہیں۔ پشاور سے کابل ہائی وے کی تعمیر بھی اس کا حصہ ہے، جو گوادر بندرگاہ کی افادیت بڑھائے گی۔ چین سی پیک 2کے لیے سنجیدہ ہے امر واقع یہ ہے کہ بیجنگ میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی سہ فریقی اجلاس نے وسیع تر علاقائی انضمام اور خوشگوار تعلقات کے امکانات روشن کر دیا ہے ۔ ایک خاص وقت اور حالات میںعالمی اور علاقائی تنازعات کے وقت، پڑوس میں ریاستوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کی اہمیت نظر انداز کرنے کا حامل امر نہیں یہ پوری طرح خوش آئند اور قابل اطمیان لمحہ ہے کہ اس اجلاس سے دو اہم پیش رفت سامنے آئی۔جس میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری اور دونوں ریاستوں نے سفیروں کے تبادلے پر اتفاق کیا۔دوسرا کابل کو ملٹی بلین ڈالر کی سی پیک اسکیم میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ یہ پیش رفت چین کی سفارتی صلاحیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔بیجنگ خاموشی سے بین الاقوامی سفارت کاری میں پیش رفت کر رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور چین کو اکٹھا کرنے کی سہ فریقی کوشش سفارتی کوششوں کے اس سلسلے میں تازہ ترین قدم ہے۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ہمراہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز رہے خاص طور پر”بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کووسعت دینے اور سی پیک کی افغانستان تک توسیع کا معاملہ علاقائی رابطوں کی مضبوطی کا حامل امر ہے مزید برآں، افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستان کے خدشات کے حوالے سے بھی مثبت پیشرفت کا عندیہ ملنا بڑی کامیابی ہے مسٹر وانگ کا یہ فیصلہ بطور خاص توجہ کا باعث ہے جس میںانہوں نے متعلقہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کریںاوردہشت گرد قوتوں کا مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جائے توپاکستان کو افغانستان سے شروع ہونے والی ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے بارے میں تحفظات سنجیدہ ہیں، کیونکہ کالعدم دہشت گرد گروپ کی جانب سے خونریزی کی انتہا کر دی گئی اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خدشات کابل کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔ سرحدی اور علاقائی تنازعات بھی تشویش کا باعث ہیں اور ان مسائل کی وجہ سے دونوں فریقوں میں کشیدگی کا ماحول طاری رہتا ہے امید ہے کہ چین کی شمولیت سے ان معاملات کو سب کے لئے اطمینان بخش طور پر حل کیا جا سکے گا۔اگرسی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جاتا ہے اور چین اس ملک میں اپنی سرمایہ کاری بڑھاتا ہے تو یہ علاقائی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تجارت اور سلامتی لازم و ملزوم ہیں، اور افغان طالبان کو آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے، انہیں اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔سہ فریقی تعاون اور تجارتی سرگرمیاں تمام ملوث افراد کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکتی ہیں، خاص طور پر افغانستان میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اگر طالبان افغانستان کے پڑوسیوں کو اپنی طرف سے دہشت گردی کے لیے صفر برداشت کا یقین دلاتے ہیں، اور افغان عوام کو بنیادی حقوق دینے کا وعدہ کرتے ہیں، تو یہ ان کی حکومت کی بین الاقوامی قبولیت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
