علمِ الاعداد جیسا کہ نام سے ظاہر اعداد یعنی ہندسوںسے متعلق کوئی علم ہے، ایک جانب تو اس علم کو قیاسی اور ظنی علم کہا جاتا ہے اور دوسری جانب شریعت اسلامیہ کی رو سے بھی اس علم کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کسی بھی عدد کو قرآنی آیات کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، پرانے زمانے کی آرئین ، مصری ،یونانی اورعبرانی قوموں میں اس علم کا بڑا چرچا تھا،بابل کے بادشاہ نمرود کا ایک مقرب نجومی تارخ بن ناحور تھاجو نمرود کی بادشاہت میں پوجے جانے والے بتوں میں سے سب سے بڑے بت لعل کا مجاور تھا، تاریخ کی اکثر کتابوں مثلاً تاریخ طبری،البدایہ و النھایہ، تاریخ یعقوبی،تاریخ الکامل وغیرہ میں اس کا ذکر ملتا ہے، اور یہ اپنے وقت کا بہت بڑا نجومی اور علم اعداد کا بڑا ماہر تھا اور اسی نے ہی اپنے نودیوی دیوتاؤں کو ابتدائی نو ہندسوں سے منسوب کیا تھا، جب مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ بڑھا تو دیگر کئی علوم کے ساتھ ساتھ علم اعداد بھی مسلمانوں تک پہنچا اور پھر اس کا نام علم جفر بھی رکھا گیا، علم اعداد میں استعمال ہونے والے رومن الفاظ کی ترتیب پر ہی عربی حروف کی ترتیب بنائی گئی ، انہی حروف کو حروفِ ابجد کہا جاتا ہے، بعض لوگ اسے حضرت علی سے منسوب کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس علم کو جناب جعفرصادق کی ایجاد اور ملکیت قرار دیتے ہیں، جس طرح علم نجوم کا تعلق ستاروں اور سیاروں کی فرضی چالوں اور خیالی اثرات سے ہے اسی طرح علم اعداد کو بھی خیالی آسمانی دیوتاؤں کی کہانیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، موجودہ دور میں اکثر لوگ کچھ اعداد کو بہت متبرک سمجھتے ہیں جس میں ٧٨٦ اور ٩٢ اہم ہیں، لوگ بڑی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ مکان، پلاٹ، گاڑی یا کسی اور چیز کے لئے ٧٨٦ کا ہندسہ مل جائے، ٧٨٦ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کا متبادل سمجھا جاتا ہے جو کہ قطعاً غلط اور خود ساختہ ہے، اگر یہ سب درست ہوتا تو پھر تو بہت آسان تھا اور علم اعداد اور علم جفر کے مطابق تو اتنی محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی،بلکہ سورتیں یاد کرنے اور کروانے کی بجائے ہر آیت اور ہر سورت کے اعداد تیار کر لیتے، پڑھنے لکھنے اور یاد کرنے میں آسانی ہوتی، اسی طرح پوری نماز کی بجائے صرف چند اعداد پڑھے جاتے، یاد رہے کہ علم اعداد سے لوگ فال وغیرہ بھی نکلواتے ہیں جو کہ بالکل جائز نہیں ہے، پیارے آقا نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا اور پوچھنے کی صورت میں اخروی نقصان سے آگاہ کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص فال نکانے والے کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے ان تمام امور کا انکار کردیا جو رسول اللہۖ پر نازل ہوئے، ( سنن ابی داؤد )، قارئین کرام یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ کچھ ایسے عدد ہیں کہ وہ بہت سی باتوں میں مشترک ہیں اگرچہ ان کی شرعی اہمیت بیان نہیں ہوئی ہے تاہم ان کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہے، اس حوالے سے میں دو اعداد کا ذکر کرتا ہوں، سات اور چار، مثال کے طور پر ہمارے اُوپر سات آسمان بنائے اور نیچے سات زمینیں بنائیں، سمندر بھی سات بنائے، ہفتے کے دن بھی سات ہوتے ہیں، اہم رنگ بھی سات ہیں اور دھاتیں بھی سات اوربعض کے ہاں انسان کے جنم بھی سات ہوتے ہیں، عید کی تکبیریں بھی سات ہیں، سورہ فاتحہ کی باربار تلاوت کی جانے والی آیات بھی سات ہیں، قرآن کریم میں سات قسم کے نسبی رشتوں سے نکاح ممنوع و حرام ٹھہرایا گیا ہے اور وراثت کو سات قسم کے ورثاء کے لئے بیان فرمایا ہے، ہم سجدہ بھی سات اعضاء پر کرتے ہیں، کعبے کے طواف کے بھی سات چکر ہیں، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے بھی سات چکر ہیں اور جمرات کی رمی بھی سات کنکریوں سے ہوتی ہے، حضرت عائشہفرماتی ہیں کہ نبی کریمۖ جب میرے گھرتشریف لائے تو آپ کے مرض میں اضافہ ہوگیا اور آپ نے فرمایا کہ مجھ پر ایسے سات مشکیزوں کاپانی بہاؤ کہ جن کے بندھن نہ کھولے گئے ہوں، (بخاری)، اسی طرح کئی دعائیں ہیں جنہیں سات سات مرتبہ پڑھنے کا حکم ہے، اسی طرح رسول اللہۖ کی مقدس اولاد کی تعداد بھی سات ہے اور قرآن پاک کی منزلیں بھی سات ہیں، اب آئیں چار کے عدد کی طرف،اہم فرشتے چار ہیں، جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل، اللہ رب العزت نے ہر دور میں رسول بھیجے لیکن ان میں سے چار کو خصوصی مقام ملا یعنی ابراہیم ، موسیٰ، عیسیٰ اور محمدۖ، بے شمار صحائف نازل ہوئے مگر چار کی حتمی شناخت قائم رہی یعنی تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید، ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام میں سے چار کو خاص مقام حاصل ہوا یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی، مسالک بھی بہت سے بنے مگر عام شہرت چار کو حاصل ہوئی یعنی حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی، مہینے تو بارہ ہیں لیکن حرمت والے چار ہیں یعنی محرم، رجب، ذوالقعد، ذو الحج،قارئین کرام ہماری روزمرہ کی بول چال میں بھی چار کا عدد بکثرت استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات، اور چار کتابیں کیا پڑھ لی ہیں خود کو افلاطون سمجھتا ہے، اسی طرح یہ بھی کہ جب چار پیسے کماؤ گے ، اورآج کے زمانے میں ایمان داری چار چار پیسے میں بکتی ہے، اور یہ کہ چار لوگوں میں آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے، اسی طرح یہ بھی کہ اگر یہ بات چار لوگ سنیں گے تو کیا سوچیں گے، اور نئی نویلی دلہن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چار دنوں کی آئی ہوئی بہو کے ایسے تیور، اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آیا اور چار باتیں سنا کر چلا گیا، اور جو زیادہ دیر چل نہیں سکتا اسے کہا جاتا ہے تم سے تو چار قدم بھی نہیں چلا جاتا، اسی طرح آنکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چار ہو گئی ہیں، اور تعریف کا ایک انداز یہ بھی کہ تم نے تو اس کام کو چار چاند لگا دئیے ہیں، اور مردوں کی دلچسپی کا اہم موضوع کہ ان کو اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے،اور چار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر چار لوگ پڑھیں گے تو کم از کم چار پل کے لئے ہی سہی مسکرائیں گے تو، اسی طرح چاروں شانے چت کرنا، محاوروں میں بھی چار کا استعمال بکثرت ملتا ہے جیسے چار ابرو صفایا کرنا یعنی سر، داڑھی، مونچھ اور بھویں منڈوا دینا اور چار انگلیاں اٹھانا یعنی سلام کرنا، اسی طرح چار باٹ کرنا یعنی پریشان کرنا، چار دانت لگانا یعنی تھوڑا سا کھانا اور چار حرف یاد کرنا اور اسی طرح چار دن کی آئیاں اور سونٹھ بِساہِن جائیاں یعنی جلد بازی کرنااور سیماب اکبر آبادی کا مشہور شعر ہے کہ
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
