ہم نمائشی کام بہت کرتے ہیں

پاکستان میں دیگر ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی کاموں کی جگہ نمائشی کاموں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتاہے اصل اور حقیقی ضرورت کے کاموں کے لیے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا۔ اس ملک میں اشرافیہ کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی اخراجات وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جاتے ہیںاور ہمارے ملک میں حکومتی اخراجات وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جن لوگوں کو خدمات کے لیے نوکریاں دیتے ہیں وہ بجائے اپنی خدمات پر توجہ دینے کے اور کام کرنے کے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے آئے روز اپنے مراعات میں اضافہ کرتے جاتے ہیں اس ملک میں اشخاص کو ایسے تاحیات اور بعدازمرگ مراعات حاصل ہیں جن کو اگر دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں کوئی سن لے تو شاید ہی یقین کرے ۔ ہم سالانہ کئی سو ارب روپے ان اشخاص اور ان کے خاندانوں پر خرچ کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو دیا کچھ بھی نہیں ۔ ہم نہ صرف ان پر غیر ضروری پیسہ خرچ کرتے ہیں بلکہ ان کو خوش رکھنے کے لیے ہزاروں نمائشی کاموں پر بھی اربوں روپے خرچ کرتے ہیں ۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو اگر اقتدار میں تھے یا ان کا کوئی اختیار تھا تو وہ کرپشن کرکے اس ملک کو لوٹتے رہے اور اس کے باوجود ان کی نسلوں تک پر غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی خرچ ہوتی رہے گی ۔ ہمارے ملک میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ترقی یافتہ ممالک میں ہر کام منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے اور اس کام کوکرنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ کام کتنے وقت کے لیے ہوگا اور اس کام سے جڑے دیگر کام بھی اس میں شامل کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی دفعہ میں سارے ہوجاتے ہیں ۔ہمارے ہاں پہلے سڑک بنائی جاتی ہے ، پھر اس کو دوبارہ کھود کر اس میں گیس کے پائپ ڈالے جاتے ہیں ، اس کے بعد کھود کر اس میں پانی کے پائپ ڈالے جاتے ہیں ، اس کے کچھ عرصہ بعد اس کو دوبارہ کھودا جاتا ہے اور سیوریج لائن ڈالی جاتی ہے اور اس کے بعد یہی عمل ٹیلی فون والے ، کیبل والے کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے اربوں روپے کا سالانہ زیاں ہوتا ہے اور ہر شہر اور ہر گلی تباہ حالی کا شکار ہوتی ہے ۔ اس ملک میں بجائے ٹھوس کام کرنے کے ہم وقتی نوعیت کے کام زیادہ خوشی سے کرتے ہیں ۔ حکومت سالانہ لوگوں کو بھیک میں دو کھر ب روپے سے زیادہ دیتی ہے لیکن ان دو کھرب سے زیادہ پیسوں سے پاکستان کے تمام غریبوں کو ہنر سکھایا جاسکتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کرتے اور ہر برس ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو بھیک لینے والوں کی قطار میں ہوتے ہیں ۔اگر ہم نمائشی طور پر ان غریبوں کو دس دس ہزار روپے دینے کی جگہ ان کو ہنر سکھائیں اور ان کے لیے اس ہنر کی فیکٹریاں لگائیں تو اس سے ان کو روزگار ملے اور ملک میں اشیاء کی قلت دور ہوجائے گی ملک بہت ساری چیزوں میں خود کفیل ہوجائے گا اورہمارا تجارتی خسارہ کم ہوگا ۔ اس عمل کو اگر دس برس تک جاری رکھا جائے تو ملک میں ایک بھی انسان بے ہنر نہیں رہے گا اورمقامی سطح پر اچھا روزگار حاصل کرسکے گا اور بیرون ملک بھی اچھے معاوضہ پر روزگار حاصل کرسکے گا ۔بنگلہ دیش نے ایسا ہی کیا تھا لوگوں کو روزگار دیا اور بھیک دینے سے انکار کرکے اور نمائشی کاموں سے انکار کرکے ٹھوس کام کیے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بنگلہ دیش میں غربت کی شرح میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے اور فی کس آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ کوئی نہیں ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ دس برسوں میں دو سوگنا زیادہ ہوگئے ہیں ۔بنگلہ دیش میں یہ خوشحالی اب ان کی سڑکوں اور شہروں میں صاف دکھائی دیتی ہے کسی دن انٹرنیٹ پر جاکر بنگلہ دیش کی ترقی دیکھیں اور پھر اپنے شہروں سے ان کا موازنہ کرلیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ جب لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے اور لوگ مصروف ہوجاتے ہیں ۔جب ملک کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے تو اس ملک کے لوگوں کی پریشانیوں میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس وقت ہمارے ملک میں یوتھ کی تعداد کا تناسب ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے مگر ان میں بیشتر بے روزگار ہیں اور ہمارے ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ اس وقت ہمارے شہروں خصوصاً پشاور میں روزانہ جتنے لوگ قتل ہوتے ہیں اتنے شاید پورے یورپ میں پورے سال میں نہیں ہوتے ۔ اس سب کی وجہ وسائل کا غلط استعمال اور تعلیم و ترقی کی جگہ فضولیات اور اشرافیہ کے مراعات کو ترجیح دینا ہے ۔ جس ملک میں چالیس فیصد بچے سکول نہیں جاپاتے وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں ایک صوبہ کی وزیر اعلیٰ پیکٹ دودھ سکولوں کے بچوں کو دینے پر سالانہ 30 ارب روپے کا نمائشی خرچہ کررہی ہیں جبکہ ان پیسوں سے پورے صوبے کے جو بچے سکول نہیں جاسکتے ان کو سکولوں میں داخلہ دیا جاسکتا تھا مگر اس نمائشی کام میں فرنٹ مین پیسے بناتے ہیں اور سکول سے باہر پھرنے والے بچوں کو سکول میں لانے سے کسی فرنٹ مین کو خوش نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم اربوں روپے کے لیپ ٹاپ بانٹتے پھر رہے ہیں مگر آئی ٹی کی تعلیم و تربیت پر کچھ خرچ نہیں کررہے اس وقت آئی ٹی کی تربیت ضروری ہے لیپ ٹاپ بانٹنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے جو ہنر سیکھ لے گا وہ لیپ ٹاپ خرید لے گا یا جہاں وہ کام کرے گا وہاں سے اسے لیپ ٹاپ مل جائے گا مگر چونکہ لیپ ٹاپ دینے میں لوگوں کا مالی فائدہ ہے ہنر سکھانے میں عوام کا فائدہ ہے اس لیے نمائشی کام کرتے جاؤ اور مال بناتے جاو ٔ ایسا ہزاروں کام ہیں جو ماضی میں نہ کیے جاتے تواس کا فائدہ ہوتا اور ان کے پیسوں سے اگر کوئی عملی کام کیا جاتا تو آج ہمارا ملک اس حالت میں نہ ہوتا ۔ اس ملک میں سرکار نے ہزاروں گاڑیاں خرید کر ڈرائیور اور تیل سمیت سرکاری بابوؤں کو دی ہوئی ہے جبکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔صرف پولیس کے محکمے میں جو پیڑولنگ کرتے ہیں دنیا میں ان کو سرکاری گاڑی دی جاتی ہے یہاں ہر افسر کے استعمال میں درجنوں گاڑیاں ہیں ۔اگر ان گاڑیوں پر جو خریدنے اور چلانے میں خرچہ آتا ہے وہ ہر شہر میں ایک ایک ٹیکنالوجی پارک لگانے میں خرچ کیا جائے تو پاکستان کی اکانومی دو برسوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر آجائے گی ۔ مگر یہاں لوگوں کو خوش کرنا مقصود ہے ۔ عوام اور پاکستان کو ترقی دلانا کسی کے ذہن میں نہیں ہے ۔ یہاں نوجوان نشے کا شکار ہورہے ہیں ، آن لائن جوا کھیل رہے ہیں ،روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے آلہ کار بن رہے ہیں ۔اور ہم یہ سب دیکھ کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔ دنیا جس تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے اس کا مقابلہ کرنا اب ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ہم اگلے چند برسوں تک اگر یہی نمائشی کام کرتے رہے اور افراد کو یعنی اشرافیہ کو نوازتے رہے اور تعلیم اور جدید ترقی کے ماڈیولز پر اپنے نوجوانوں کی تربیت سے پہلو تہی کرتے رہے تو بھوکے مرجائیں گے اور اشرافیہ اپنے اپنے محلوں میں جو مشرقی وسطیٰ اور دیگر ممالک میں ہیں وہاں منتقل ہوجائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا