ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور سیکرٹری داخلہ نے پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں20سال سے جاری دہشت گردی کی جو تفصیلات دنیا کے سامنے رکھی ہیں وہ ایک طویل پس منظر کا نچوڑ ہے جس کے ا نسداد کے لئے بالاخر فتنہ الہند آپریشن کا فیصلہ کیا گیا سیکرٹری داخلہ خرم آغا نے بتایا کہ بلوچستان میں بچوں کی بس پر حملے کا واقعہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کی سرپرستی میں ہوا سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ حکومت پاکستان ان نیٹ ورکس کو ختم کرے گی، ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، دہشت گردی کی ان کارروائیوں پر سخت ایکشن ہوگا، فتنة الہند نے اب سافٹ ٹارگٹس پر حملے شروع کئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بھارت کی 20 سالہ ریاستی دہشت گردی پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2009 میں پاکستان نے شواہد بھارت کے وزیراعظم کو دئیے، گرفتار دہشت گردوں نے بھارت کی پشت پناہی کا اعتراف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت خطے میں امن کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے فتنہ الخوارج کے ساتھ فتنہ الہند کے عناصر کے خلاف جامع نشترزنی کا اعلان کیا دیکھا جائے تو محولہ دونوں فتنے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اوران کا گٹھ جوڑ ہے بدقسمتی سے دونوں کی چولیں ایک پڑوسی ملک سے ہلائی جاتی ہیں تو دوسرے پڑوسی ملک میں ان کے ٹھکانے اور مراکز ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ بالاخر افغانستان کی جانب سے اس ضمن میں پاکستانی شکایات کا سنجیدگی سے ازالے کاعندیہ دیاگیا ہے جبکہ ایران سے بھی ان کی آمدورفت مسدود کرنے کا انتظام ہو رہا ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ایران میں کارروباری آڑ میں را کے بڑے ایجنٹوں کا نہ صرف ایک بڑا نیٹ ورک کلبھوشن کی گرفتاری سے ہی پکڑا گیا بلکہ حال ہی میں اس کے مماثل ایک اور نیٹ ورک کوبھی پکڑے جانے کی اطلاعات ہیں ایسے میں آپریشن الہند کی کامیابی کے لئے جہاں اندرونی طور پر مساعی کی اہمیت ہے وہاں افغانستان اور ایران کا تعاون بھی اہم ہو گاچین کی جانب سے بھی اس مدمیں مواصلاتی تعاون کا عندیہ دیا گیا ہے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں نہ صرف دشمن کے ہاتھوں کھیلنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کاعندیہ دیا گیا ہے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق جامع تطہیری عمل کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا گیا ہے امرواقع یہ ہے کہ بھارت اور اس کی پراکسیز کے سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کے حملوں میں متعدد نہتے بیگناہ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ شرپسندوں کی جانب سے غیربلوچ مزدوروں کا قتل عام بھی بلوچستان میں جاری شورش کا بھیانک پہلو رہا ہے حالیہ دنوں بھارت کے دانت کھٹے کرنے کے بعد واضح انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ بھارت بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے کارروائیاں کرے گا اگرچہ کسی تنظیم نے بھی تاحال خضدار حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بلوچستان کے واقعات میں کس کا ہاتھ ہے اس بارے دو رائے نہیں کہ بھارت اور دیگر ریاست دشمن عناصر پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ اس کی سب سے اہم مثال کلبھوشن یادیو ہے۔ اس طرز کو دیکھتے ہوئے ریاست کے پاس جواز ہے کہ وہ گزشتہ روز ہونے والے ظالمانہ حملے کو پراکسیز سے منسلک کرے بالخصوص جب ان کے پاس مضبوط ثبوت ہیں جو ان پراکسیز کے جرم کو ثابت کرتے ہوں۔ان کے خلاف طاقت کااستعمال کرے نیزہمارے مشرقی ہمسائے کے اقدام کی نظیر موجود ہے نئی دہلی نے کسی ثبوت کے بغیر ہی پہلگام حملے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔ مقبوضہ کشمیر میں حملے پر مودی انتظامیہ کے جارحانہ ردعمل نے دونوں ممالک کو مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔تاہم اس کے باوجود بہتر راستہ یہ ہو گا کہ پاکستان کو زیادہ معقول رہنا چاہیے۔ اس کے پاس بھارت کے ملوث ہونے کے جو شواہد ہیں، انہیں نئی دہلی اور بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھنا چاہیے۔ یہی درست راستہ ہوگا کیونکہ پہلگام کے بعد بھارتی بیانیے کو اقوامِ عالم نے سنجیدہ نہیں لیا تھا۔سچ یہ ہے کہ بلوچستان میں ایک حقیقی مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس کے حل کے لیے طویل مدتی اقدمات اختیارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی یا اندرونی عناصر صورت حال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ پاکستانی ریاست کو اس معاملے پر سنجیدگی سے کام لینا چاہیے۔بلوچستان کے عسکریت پسند مسئلے کو حل کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ سیاسی حل کی تلاش بھی ضروری ہے۔ بیگناہ شہریوں کے قتل میں ملوث افراد کو ان کے جرائم کی سزا خود ملنی چاہیے۔ لیکن دہائیوں پرانی شکایات کے سیاسی ازالے کے بغیر انسداد دہشتگردی کی پائیدار حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ تمام ناقدین کو قوم مخالف یا بھارتی ایجنٹس قرار دے کر بلوچستان میں امن نہیں لایا جاسکتا۔صوبے میں مفاہمت کے عمل کی سخت ضرورت ہے جس میں عدم تشدد کے حامی سیاسی عناصر شامل ہوں جو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنے پر راضی ہوں۔ صرف عسکری کارروائیاں ناکافی ہوں گی۔
