ایک واٹر بم نہیں کئی بم

پانی کی قدروقیمت کیا ہوتی ہے مودی جی کا شکریہ کہ اس نے نہ صرف پاکستان کو اپنے اسلحہ ٹیکنالوجی ہی کا میدان جنگ میں استعمال کرکے آزمانے اور منوانے کا ہی موقع نہ دیا بلکہ پاکستانیوں کی لاعلم اکثریت کو یہ بھی معلوم ہوا کہ پانی پاکستان کے لئے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے لئے جنگ ہو سکتی ہے مگرابھی ہم قومی شعور کے اس درجے سے بھی دور ہیں کہ ہم عملی طور پر اسے سنگین مسئلہ سمجھیں اور اس کی پیش بندی کریں پانی ہی نہیں زمین بھی یکساں ضروری اور اہمیت کی حامل چیز ہے مگر ہم اسے اللہ کی قرار دینے کے باوجود اس سے وہ سلوک کرتے ہیں کہ اللہ کی وسیع زمین بھی تنگ ہونے لگی ہے میں وسیع صحرائوں کی بات نہیں کر رہی ہوں شہروں میں مکانات اور مضافات و دیہات میں زرعی زمین میرا موضوع ہے موسم کی مناسبت ہی سے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح بے ہنگم تعمیرات اور کنکریٹ کے جنگل کے باعث درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور ہم گھروں و مکانات کے باسی کم تندور کے مکین زیادہ بن گئے ہیں پانی کی ز یر زمین سطح مسلسل پست ہوتی جارہی ہے چشمے سوکھ رہے ہیں اس میں تو چلیں موسمی ا ور قدرتی حالات کا کافی عمل دخل ہو گا مگر ہم بھی برابر کے ذمہ دار پھر بھی ٹھہرتے ہیں زرعی اراضی اور باغات کو اجاڑنے میں قدرتی حالات اور موسم کا کردار نہایت محدود ہے اس کا سارا الزام ہی ہم پر آتا ہے یقین نہیں آتا تو صوبائی دارالحکومت پشاور کے کسی بزرگ شہری سے پوچھ لیں پشاور کو پھولوں اور باغات کا شہر قرار دیا جاتا تھا ذرا نظر دوڑائیں کہیں قابل ذکر قطعہ اراضی پر نظر پڑتی ہے اب تو پشاور کے جس سمت بھی نکل جائیں زرعی اراضی اور باغات کی جگہ بے ہنگم تعمیرات نظر آتی ہیں یا پھر ان تعمیرات کے لئے دن رات زمین سے آسمان تک فضا کو دھوئیں کے مرغولوں سے سیاہ ترین کرتے بھٹہ خشت کی قطاریں یہ تو شہری علاقے ہیں کاغان ‘ ناران ‘ مری ‘ گلیات ‘ ایبٹ آباد ‘ کمراٹ کے سیاحتی مقامات کی ”تعمیراتی بربادی” پر محکمہ سیاحت و ماحولیات کسی کی بھی نظر نہیں ہنگو ‘ چترال ‘ سوات کے بالائی علاقوں میں ہائوسنگ سکیمز اگر صرف مقامی آبادی ہی کے لئے بنتے تو اس کو مقامی آبادی کی ناگزیر رہائشی ضروریات کاتقاضا گرداننے کی گنجائش تھی مگر یہاں کاروباری ‘ رہائشی منصوبوں میں ہر خاص و عام کو دعوت عام ہے چلیں ہم وطنوں کے کاروباری رہائشی حقوق سلب تو نہیں کئے جا سکتے مگر ان علاقوں میں جو تھوڑی بہت بلکہ نہ ہونے کے برابر زرعی اراضی ‘ باغات اور سبزہ تھا اسے بھی اجاڑنے کی اجازت کیسے ملتی ہے صوبائی حکومت زرعی اراضی کے تحفظ کے لئے قانون سازی کر چکی ہے پھر یہاں بے پناہ تعمیرات کاروباری تعمیرات کی اجازت کیسے ملتی ہے صوبائی دارالحکومت پشاور میں جس قدر پلازے بن رہے
ہیں اس کے کمزور انفراسٹرکچر پر بوجھ ہی نہیں بلکہ بلڈرز مافیا لوگوں کو سرمایہ کاری کا لالچ دے کر ان کو جودکانیں ‘ مارکیٹیں بنابنا کربیچ رہا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ خالی ہی پڑے رہ جائیں ان تعمیرات کی صرف زرعی اراضی ‘ باغات اور قبرستان ہی نہیں آرہیں بلکہ ارد گرد کے پہاڑ بھی کٹتے جارہے ہیں اور قدرت کا وہ توازن جو انسان حیوان ‘ چرند پرند جنگلات پہاڑ فصل آور زمین سبزہ زاروں اور مرغزاروں کی صورت میں قائم تھا اسے لالچی انسانوں نے ایسا غیر متوازن کر دیا ہے کہ قدرت کی قہر سامانیوں کی صورت میں سخت اور شدید ردعمل پر بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ۔ یہ مافیا اور لالچی لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر جب بے اعتبارے ہو جائیں تو سب کچھ سمیٹ کر علاقہ اور ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ایک بڑے بزنس ٹائیکون نے جب ہر حربہ استعمال کرکے ملی بھگت تعلقات اور طاقت کے زور پر جب سب کچھ بنا کر بیچ کر ہڑپ کر لیا تو دیکھیں آج وہ کہاں ہے اس سطح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں چلیں میں آپ کو مقامی طور پر مثالوں سے
بتاتی ہوں اگر آپ غور کریں گے تو اکثر پراپرٹی ڈیلر ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈیرہ بنانے اور ڈیرہ ڈالنے میں پہل کرتے ہیں اور جب علاقہ بن اور بک جاتا ہے تو وہ نئی جگہ چلے جاتے ہیں یہ ایک تسلسل کاعمل ہے قدرت بھی زمین بیچنے والوں کو سکھ اور ٹکنے نہیں دیتی مگر ان پاوندہ نما مافیا اور ان کے سرپرستوں کو کون سمجھائے ان کی آنکھ ہی اس وقت کھلتی ہوگی جب شہر کے شہر اور قصبے کے قصبے بیچ کر بالا خر دو گز زمین میں جا بستے ہوں گے۔ ہمیں اگر اپنا ملک اور اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہے تو پھر ہمیں صرف پانی بند کرنے والوں ہی سے جنگ نہیں کرنی چاہئے اپنے آپ سے بھی جنگ اور ان سے بھی جنگ کرنے کی ضرورت ہے جو تعمیرات مافیا بن کر ہمارے شہروں کو وسعت کے نام پر بگاڑ رہے ہیں ہماری زرعی اراضی باغات اور سبزہ زاروں کو اجاڑ رہے ہیں رہائشی مکانات انسان کی بنیادی ضرورت ہیں ان کی تعمیر ہونی چاہئے مگر ایک ہی شہر کو اتنا گنجان نہ کیا جائے کہ رہنے کے قابل نہ رہے فاصلے فاصلے پر غیر آباد اور بنجر زمینوں پر قصبات اور شہر قائم کئے جائیں شہرائو کا جو بے ہنگم اور بے ترتیب عمل جاری ہے اس کی روک تھام منصوبہ بندی کے ساتھ ہونی چاہئے شہروں میں کمرشل تعمیرات کی ہر جگہ آزادی نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی طلب اور رسد کو غیر متوازن کرکے آبادیاتی عدم توازن پیدا ہونے کے مسئلے سے حکام شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دیئے رکھیں صرف آبی بم ہی سے ہماری بقاء خطرے میں نہیں بلکہ معاشی ‘ سماجی ‘ ادارہ جاتی ‘ ثقافتی اور حیاتیاتی بم بھی کم خطرناک نہیں اس کا بھی ادراک اور تدارک ضروری ہے اور بس۔

مزید پڑھیں:  تہران تا واشنگٹن ' تشکر پاکستان