کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

چترال کے باشندے اس ملک کے شریف ترین لوگ ہیں ۔ چترال کی ریاست اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئی ۔چترال کے یہ باشندے بہت سخت زندگی گزارتے ہیں چترال میں حکومتی ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ دو اضلاع پر مشتمل چترال رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا علاقہ ہے ۔چترال میں صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں چترال کی سڑکیں اس دور میں بھی اتنی ناگفتہ بہ ہیں کہ ان پر ایک دفعہ سفر کرنے والا دوبارہ سفر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے ۔ یہ پرامن لوگ روزگار کی تلاش میں یا پھر مریضوں کو لے کر پشاور کا رُخ کرتے ہیں اور ان سب لوگوں کو لواری سرنگ کراس کرکے دیر پہنچنا پڑتا ہے ۔ ایک دہائی پہلے تک چترال کے یہ لوگ لواری ٹاپ کے خطرناک راستوں پر سفر کرتے تھے اور سخت مشکلات جھیل کر پشاور پہنچتے تھے ، سردیوں کے موسم میں یہ سہولت بھی ان کو میسر نہیں ہوتی تھی اور چترالی اپنے مریضوں کو پیٹھ پر لاد کر برف پھاند کر لواری ٹاپ پیدل کراس کرتے تھے اور سالانہ درجنوں لوگ اپنی جان کھو دیتے تھے ۔ پھر پرویز مشرف نے ان پر رحم کھا کر ان کے لیے لواری ٹنل بنا دی جوا بھی تک بنیادی سہولیات سے عاری ہے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ اب سہولت کے ساتھ چترال سے باہر جاسکیں گے اور آسکیں گے ۔ مگر سرنگ بننے کے بعد دنیاوی خداؤں نے ان کی زندگی عذاب بنا دی ہے لواری ٹنل کے دونوں اطراف بلا کسی وجہ لوگوں کو گھنٹوں قطاروں میں روکا جاتا ہے اور جب وہاں موجود سپاہی کی مرضی ہوتی ہے ان کو گھنٹوں روک کر اس کے بعدجانے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ لواری ٹنل میں باآسانی دونوں اطراف سے بڑے بڑے ٹرک آاور جاسکتے ہیں یہ دو طرفہ ٹریفک کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ مگر چترال کے غریب عوام کو اور چترال جانے والے سیاحوںکو جان بوجھ کر تنگ کیا جاتا ہے ۔لواری ٹنل کے دونوں اطراف گھنٹوں مسافروں کو روکے رکھنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے اس لیے کہ ان مسافروں میں زیادہ ترمریض ہوتے ہیں جن کو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ لواری کے ایک طرف یعنی چترال والی سائیڈ پر اپرووچ سڑک انتہائی مخدوش حالت میں ہے اس پر کئی برسوں سے کام مکمل نہیں کیا گیا اگر کسی دن کوئی ایسی حکومت آئی جو انصاف کرسکتی ہوتو لواری ٹنل اور اس کے اپرووچ روڈوں پر جو کرپشن ہوئی ہے وہ بے نقاب ہوجائے گی اور سب سچ سامنے آئے گا کہ کس طرح اس روڈ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اور اربوں روپے خرچ کیے گئے مگر روڈ نہیں بنائی گئی ۔ چترالیوں کے ساتھ یہ ظلم صرف یہاں روا نہیں رکھا گیا ،چترال شندور روڈ جو پتہ نہیں کب سے بن رہا مگر اس پر سفر کرنا اب ایسا ہی ہے جیسے کوئی موت کے کنویں میں سفر کررہا ہو۔ ایک اور روڈ بونی بوزند روڈ ہے جس پر کئی دہائیوں سے کام ہورہا ہے ٹھیکے پر ٹھیکے دئیے گئے ۔ہر برس دس پندرہ کروڑ روپے اس روڈ کے لیے جاری کیے جاتے ہیں مگر یہ چند کلومیٹر کا روڈ بن ہی نہیں رہا ۔ اس روڈ کے لیے چترال میں ہزاروں مرتبہ احتجاج ہوچکا ہے اس کے لیے عدالت میں کیس کیے گئے مگر پاکستان میں کرپشن کا نظام اتنا مضبوط اور طاقتور ہے کہ چترال کے غریب عوام کی فریاد کسی تک نہیں پہنچتی ۔شرم سے عاری بڑے بڑے لوگ ہر برس چترال گھومنے پھرنے آتے ہیں اور انہی سڑکوں کو دیکھ کر لوٹ جاتے ہیں مگر وہ اختیار رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرتے ایسے بے حس معاشرے میں انصاف کی توقع محال ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار چترال آئے تھے ان کے ساتھ درجنوں افراد ان کی فیملی کے تھے انہوں نے کئی روز چترال میں قیام کیا تھا ۔انہوں نے چترال کی سڑکوں کی مخدوش حالات پر ایکشن بھی لیا تھا مگر گفتن نشستن برخاستن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوا ۔ چترال کے دور دراز علاقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچی سڑکیں بنا کر گزارہ کررہے ہیں بہت سارے دور
دراز علاقوں میں آغا خان رولر سپورٹ پروگرام نے عوامی مدد سے کچھ کچی سڑکیں بنائی ہیں ۔ چترال میں لوگوں کو بجلی دستیاب نہیں ہے اربوں روپے کے پن بجلی گھر کاغذوں میں بنائے گئے اور کچھ زمین پر بنے مگر ان میں سے بیشتر ناکام ہیں اور لوگوں کو اس دور میں بھی بجلی میسر نہیں ہے ۔ کسی نے ان چھوٹے پن بجلی گھروں کی ناکامی کے ذمہ داروں کو نہیں پوچھا کسی سے دریافت نہیں کیا کہ یہ جو اربوں روپے چترال کے نام پر آئے تھے وہ کہاں خرچ ہوئے اور جو بجلی گھر بنائے گئے وہ کیوں کام نہیں کررہے۔ چترال میں سی اینڈڈبلیو اور دیگر اداروں کا اڈٹ بھی ہوتا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس میں سب کچھ حلال بھی ہوجاتا ہے ۔ چترال میں ہر برس قدرتی آفات کے نام پر کروڑوں روپے کاغذوں میں خرچ کیے جاتے ہیں ۔ چترال کے سارے جنگلات ٹمبر مافیا کاٹ کاٹ کر لے گئے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ چترالی غریب لوگ ہیں وہ بہت مشکل سے گزارہ کرتے ہیں ان کو راستوں میں روک کر ان کی تکالیف میں اضافہ نہیں کرنا چاہیئے اور ان کے نام پر کروڑوں روپے نکلوا کر ان کے علاقوں میں سڑکیں اور دوسری سہولیات نہ پہنچا کر ہم ان کے ساتھ مزید ظلم کررہے ہیں ۔چترال جو معدنیات اور دیگر وسائل سے مالامال ہے اور پاکستان کو لاکھوں کیوسک فٹ پانی دیتا ہے ۔اگر اس میں سے صرف دس فیصد دوبارہ چترال پر خرچ کیا جائے تو وہاں کے لوگوں کی زندگی میں بڑی سہولیات آجائیں گی ۔چترال میںائیرپورٹ ہونے کے باوجود وہاں جہاز نہیں جاتے اگر پی آئی اے نہیں جاتی تو کسی پرائیویٹ ائیر لائن کو اجازت دی جائے اور چترال میں سیاحوں کو آنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ظلم یہ بھی ہے کہ تین سو کلومیٹر کے فاصلے کا کرایہ پشاور سے تین ہزار تین سو روپے وصول کیا جاتا ہے جبکہ پشاور سے لاہور کا کرایہ اس کا نصف بھی نہیں ہے جبکہ پشاور سے لاہور کا فاصلہ ڈیڑھ سو کلومیٹر زیادہ بھی ہے ۔افغانستان جس نے مسلسل جنگیں دیکھیں اور
تباہی دیکھی اس کے کچھ علاقے بالکل چترال جیسے ہیں جیسے بدخشاں وغیرہ وہاں جنگ اور تباہی کے باوجود جو ترقی ہوئی ہے اس کا موازنہ اگر چترال سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق ہے وجہ صرف ایک ہے کہ وہاں کوئی کرپشن نہیں ہوئی سڑکیں ایک یا دو برسوں میں بنائی گئیں ان علاقوں کی کچھ سڑکیں تو حکومت پاکستان نے ان کو بنا کردی ہیں یعنی ہمارے لوگ دوسرے ملک جاکر مفت میں اتنی شاندار سڑکیں بناتے ہیں اور اپنے ملک میں اربوں روپے لگا کر بھی سڑک نہیں بنا پاتے ۔ چترال میں بہت سارے افغانستانی باشندے رہتے تھے چترال کے لوگوں نے ان کوبہت عزت دی تھی اور ان کی بڑی مدد کی تھی وہ سب واپس افغانستان گئے ہیں اور وہاں اپنی گاؤں اور علاقوں کا نام چترال رکھا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپنے علاقوں کی ویڈیوز شیئر کرتے رہتے ہیں ان کی سڑکیں دیکھ کر رشک آتا ہے کہ وہ لوگ اپنے برباد علاقوں کو چھوڑ کر دہائیوں تک چترال میں تھے وہ جب اپنے علاقوں میں واپس گئے تو وہاں ہمارے پاکستانیوں نے ان کے لیے شاندار سڑکیں بنائی ہوئی ہیں وہاں سب کو بلا تعطل ایک روپیہ سے بھی کم پر فی یونٹ بجلی دستیاب ہے مگر چترال کی پانیوں سے بننے والی بجلی جس پر ایک روپیہ سے کم خرچہ آتا ہے وہ چترال کے لوگوں کو چالیس روپے یونٹ میں دی جاتی ہے۔یہ شریف لوگ جو افغانستان کی سرحدوں سے منسلک علاقوں میں زندگی گزررہے ہیں نہ سمگلنگ کرتے ہیں نہ دشمنوں کو پناہ دیتے ہیں اور حالات کیسے بھی ہوں پاکستان کے وفادار رہتے ہیں ان کو سڑکوں پر روک کر ان کی محب وطنی کی سزا نہ دی جائے جس بھی عقل کے آندھے نے لواری ٹنل کے اطراف ان کو گھنٹوں روک کر تنگ کرنا کا حکم دیا ہے اس سے بازپرس ہونی چاہئے اور چترال کے ان شریف لوگوں کو مزید تنگ کرنے سے اجتناب برتنا چاہئیے وہ لوگ جو پاکستان کے کسی بھی قانون کو نہیں مانتے ان کو روکنے اور تنگ کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے مگر جو شریف ہیں وہ لواری ٹنل کے دونوں اطراف روز خوار ہوتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  خوابوں میں بھی خیال سے آگے نہیں گئے