روسی وزیر دفاع کیا کہتے ہیں؟

صرف دو روز قبل افغان طالبان کے کمانڈر سعیداللہ سعید کی کابل میں پولیس پاسنگ آئوٹ کی تقریب سے خطاب کرے ہوئے فتنہ ا لخوارج کو مخاطب کرکے اس بات کی تلقین کرنا کہ پاکستان کے خلاف لڑنا جائز نہیں ‘ ابھی کمانڈر سعید اللہ سعید کے اس بیان کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ شمالی وزیرستان اور چترال میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی جانب سے چیک پوسٹوں پر حملوں کی خبریں آگئی ہیں جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق 6دہشت گرد انجام کو پہنچ گئے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فتنہ الخوارج اب افغان طالبان کی ہدایات کو بھی کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں بلکہ وہ صرف اور صرف ”کرائے کے سپاہی” بن کر پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح ناچ رہے ہیں اس ضمن میں روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مغربی ممالک روس کو تزویراتی شکست سے دو چار کرنے کے لئے اجتماعی سلامتی کے معاہدے (کاسٹو) کے رکن یہ ممالک ماسکو پر مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں انہوں نے افغانستان سے ابھرنے والے دہشت گرد خطرات میں اضافے سے خبردار کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر اس وقت 20سے زائد شدت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ روس اس خطے کا ایک اہم ملک اور طاقت کا مرکز ہے اس کے وزیر دفاع کے بیان کو اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اگر وہ افغانستان میں کم ازکم 20 بلکہ اس سے زیادہ شدت پسند جماعتوں کو سرگرم ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو ان کی معلومات کے جی بی جیسے انتہائی فعال جاسوسی نیٹ ورک کی مرہون منت ہوں گی اس لئے اب تمام تر ذمہ داری افغانستان کی طالبان عبوری حکومت پر آجاتی ہے کہ وہ ان شدت پسند تنظیموں کو صرف زبانی کلامی ”جہاد”سے روکنے کی تلقین نہ کریں بلکہ یہ تسلیم کر لیں کہ جس مفروضے پر یہ شدت پسند ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کر رہے ہیں وہ جہادکے نام پر ”نام نہاد” جہاد ہے اور اسی لئے پاکستان نے انہیں اگر فتنہ الخوارج کا نام دیا ہے تو اس میں قطعاً شک نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے علمائے نے بارہا ان کی سرگرمیوں کو خارج ازاسلام قرار دیا ہے اس لئے اب طالبان کو ان تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے پڑیں گے تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے ۔

مزید پڑھیں:  عجیب پالیسی؟