حصول علم کواسلام نے جو اہمیت دی ہے اس بارے میں احادیث اور دیگر اہم روایات اور ہدایات کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ ہر مسلمان ان سے بخوبی واقف ہے مگر انتہائی بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد بعض وجوہات کی بناء پر جن کے تذکرے کے لئے دفتر کے دفتر سیاہ کئے جا سکتے ہیںکسی بھی حکومت نے خواہ مرکزی ہو یاپھر وفاقی ‘ اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسے قابل توجہ ہی نہیں گردانا تو شاید غلط نہ ہو اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کیونکہ جس ملک کے بجٹ میں حصول علم اور تعلیمی اداروں کو اہمیت ملنی چاہئے تھی اس کے لئے کم سے کم فنڈز مخصوص کرکے دیگر منصوبوں کو اہمیت دی جاتی رہی گزشتہ چند برس کے دوران بڑی مشکل سے سکولوں کی طالبات اور طلبہ کے لئے مفت کتب کی فراہمی اور یونیفارم کے ساتھ ساتھ طالبات کو ماہانہ وظائف کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کسی نہ کسی حد تک قابل ا طمینان ضرور تھا مگر ادھر کچھ مدت سے مفت کتب کی فراہمی کے ضمن میں ناشروں کو بروقت ادائیگی نہ کی جانے کی وجہ سے اب درسی کتب کی فراہمی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق تادم تحریر درسی کتب کے ناشرین کی سرکار کے ذمے لگ بھگ 14 ارب کی رقم واجب الادا ہے اور جس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مزید کتب کی فراہمی ایک مسئلہ بن رہی ہے ‘ 14ارب کوئی معمولی رقم نہیں ہے جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت یہ دعوے کرتی نہیں تھکتی کہ خزانہ بھرا ہوا ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی کوئی کمی نہیں دوسری جانب جس طرح میگا پراجیکٹس میں کرپشن کی داستانیں سامنے آرہی ہیں ان سے قطع نظر اگر صوبائی حکومت کا خزانہ بھرا ہا ہے تو تعلیم جیسے شعبے کے لئے رقوم کیوں نہیں ہیں اور ایک جانب یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے لئے فنڈز کی عدم دستیابی سے ان کی خستہ حالت کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اور اب 1500 سے زائد سرکاری سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں جبکہ مفت کتب تقسیم کرنے کے حوالے سے ناشرین کو 14ارب سے زائد ادا کرنے کا مسئلہ الگ سے مشکل کا باعث بنا ہوا ہے اس لئے حکومت کو اس اہم مسئلے کے حل کے لئے فوری اقدام کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ طلبہ اور طالبات اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔
