بلوچستان میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ

جیسا کہ حالیہ واقعات اس امر پر دال ہیں کہ پاکستان کو اندرونی سلامتی کے کافی سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فتنہ الخوارج اورفتنہ الہند گروپوں کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں تاہم گزشتہ چند دنوں میں انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں بھاری قیمت ادا کرکے جو کمی لائی گئی وہ بطور خا ص قابل ذکر ہیںخیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں فتنہ الہند کے تحت جاری آپریشن میں آئے روز کی کامیابیوں اور نام نہاد سرمچاروں کو چن چن کر نشانہ بنانے کا جاری عمل اطمینان بخش طریقے سے جاری ضرور ہے تاہم گزشتہ روزفیلڈ مارشل عاصم منیرکی کوئٹہ میں موجودگی کے موقع پر ردعمل میں جو کارروائی کی گئی ہے وہ چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہے سرکاری افسران اور عملے پر حملہ اور بینک لوٹنے سے سیکورٹی کے انتظامات میں سقم کا عندیہ ملتا ہے خصوصاً ایسے موقع پر جب اعلیٰ فوجی قیادت صوبے کے دورے پر ہوا جو قابل توجہ اور فوری اقدامات کا متقاضی عمل ہے بلوچستان میں حالات کو بہتری کی طرف لانے کے لئے نام نہاد سرمچاروں کے خلاف طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات کی ضرورت کا بھی احساس ہوتا ہے جس کے تحت بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندی کے بڑے مسئلے اور بلوچستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دیگر کوششوں کو سیاسی عمل کے ساتھ مل کر کیا جانا چاہیے۔دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے داخلی سلامتی کی کوششوں اور دہشت گردوں کے کمین گاہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے خفیہ کارروائیوں کی حیثیت مسلمہ ہے خطے میں دشمن عناصر جس طرح سے دہشت گرد گروہوں کی پرس پردہ حمایت کر رہے ہیں اوران کی سہولت کاری ہو رہی ہے اس کے ادراک کا تقاضا ہے کہ نئے خطرات کو ناکام بنانے کے لیے چوکنا رہا جائے۔کلیدی طور پر دہشت گردی کے فوری خطرات اور عسکریت پسندی کو ہوا دینے والے بنیادی عوامل سے نمٹنے کے لیے سماجی سیاسی مداخلتوں کے ساتھ متحرک کوششوں کومربوط کیا جانا چاہئے جس طرح پاکستان غیر ملکی جارحیت کو ناکام بنانے میں کامیاب رہا اور اسی عزم و حوصلے کے ساتھ ملکی دہشت گردی کے خطرے کو بھی بے اثر کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ایک طوفاں ہے بے حیائی کا''