چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ پاک بھارت حالیہ لڑائی نے مستقبل میں کشیدگی کے خطرے میں اضافہ کر دیا ہے، کسی بھی وقت اسٹریٹجک مس کیلکولیشن کو مسترد نہیں کیا سکتا۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا کہ دونوں افواج نے اپنی فوج کی سطح میں کمی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم تقریباً 22اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آچکے ہیں، ہم اس کے قریب پہنچ رہے ہیں یا ممکنہ طور پر پہنچ چکے ہیں۔ اس بار کی لڑائی صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہی، دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے اہم علاقوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے، لیکن کسی نے بھی کسی بڑے نقصان کو تسلیم نہیں کیا۔دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے خبردار کیا ہے کہ اگر آئندہ پاکستان کی جانب سے کوئی جارحیت یا ”غیر اخلاقی” اقدام کیا گیا تو بھارت اس کا جواب اپنی بحریہ کی طاقت سے دے گا۔ ان کا یہ بیان بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اور کئی دہائیوں کی شدید ترین جھڑپوں کے بعد سامنے آیا ہے۔راج ناتھ سنگھ نے مغربی بھارتی ریاست گوا کے ساحل کے قریب موجود طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت پر خطاب کرتے ہوئے کہا، اگر پاکستان نے کوئی حرکت کی تو اس بار اُسے بھارتی بحریہ کی طاقت اور غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی گئی کارروائی کو ‘آپریشن سندور’ کا نام دیا گیا ہے، جو ان کے مطابق ”روکا ضرور گیا ہے، مگر ختم نہیں ہوا۔انہوں نے مزید کہا، ”ہم نے اپنی فوجی کارروائیاں اپنے فیصلے سے روکی ہیں۔ ہماری افواج نے تو ابھی اپنی اصل طاقت دکھانا شروع بھی نہیں کی تھی۔ یہ بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب دونوں ممالک جنگ بندی کے باوجود سفارتی تنائو کا شکار ہیں اور بین الاقوامی برادری صورت حال کو بغور دیکھ رہی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی مداخلت پر فائر بندی ضرور ہو ئی ہے اور جنرل ساحر شمشاد نے اس امر کا بھی عندیہ دیا ہے کہ صورتحال کشیدگی سے قبل کے حالات کی طرف لوٹ رہی ہے اور قریب قریب لوٹ چکی ہے تاہم دوسری جانب سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کی سرگرمیاں جاری ہیں جس میں پہلی مرتبہ پاکستان کے موقف کو پذیرائی اور بھارتی موقف کو مسترد کرنے کا رجحان ہے یہاں تک کہ ان کے سفارتکاروں کو بھی کم درجے کا پروٹوکول مل رہا ہے جس کی شاید بڑی وجہ بھارت کاالزامات کے ثبوت و شواہد ہی پیش کرنے میں ناکامی نہیں بلکہ بادی النظر میں بھارت نے یورپ کی جس جدید ٹیکنالوجی اور آلات حرب کو ناکام اور بے توقیری کا نمونہ بنا دیا ہے اور پاکستان نے ان کا مقابلہ ہی نہیں بلکہ ان کو حیرت انگیز طور پر ناکام اور غیر موثر ثابت کرکے دنیا بھر کی جو توجہ حاصل کی ہے اس نے پاکستان کو اچانک دنیا کے ممالک میں قد آور اور باعث توقیر بنا دیا ہے ایسے میں میدان جنگ سے سفارتی میدان تک میں بھارت جس دھچکے کا شکار ہے اسے ہندو قیادت کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے نیز بھارتی عوام کا دبائو بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے مقامی اور عالمی میڈیا پر الگ کے تنقید ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روزپاکستان کو دھمکیاں مل رہی ہیں تازہ دھمکی بحریہ کے استعمال کا ہے جو از خود اس امر کا غماز ہے کہ بھارت کو اب اس امر کا عملی ادراک ہو چکا ہے کہ وہ بری اور فضائی محاذ میں پاکستان کا سامنا نہیں کر سکتی اس مرتبہ یا توبحریہ صرف چوکسی اورتیاری کی حالت تک رہی ایسا لگتا ہے کہ بھارت معرکہ دوارکا بھول چکا ان تمام عوامل کے باجود بہرحال اب پاک بھارت عناد ایک ایسے دور میں داخل ہو چکا کہ بھارت اپنے زخم چاٹتے ہوئے بدلہ کی آگ میں تپ اور تڑپ رہا ہے اور وہ کسی بھی وقت دوبارہ جارحیت کی سنگین غلطی کر سکتا ہے ایسے میں اگرچہ سرحدوں پر صورتحال کے معمول پر لائے جانے کی اطلاعات ہیں اس کے باوجود ہر محاذ اور ہر سطح پر مزید چوکس اور خبردار رہنے کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں بھارت پاکستان میں اپنے پروردگان کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کی سعی میں ہے اس حوالے سے بطور خاص مزید توجہ اور اقدامات کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کمزوریوں جن کا ہم اعتراف کریں یا نہ کریں بطور خاص جائزہ لینے اور ان کو دور کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ایک اور بھارتی حملے کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کو اپنے دفاعی معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔
