براہ راست مذاکرات کی رٹ کیوں؟

پاک بھارت کشیدگی اور بھارت کے حوالے سے سفارتی سرگرمیوں میں تیزی کے باوجود افغانستان کے ساتھ معاملات میں بہتری کی جو سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اور اس کے نتائج بھی حوصلہ افزاء ہیں اس کے باوجود خیبر پختونخوا کی اس رٹ کو سمجھنا مشکل ہے کہ وفاق ان کو افغانستان سے براہ راست مذاکرات کی اجازت دے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدگی کے درجے سے دوستانہ سطح پر مراجعت اور طالبان قیادت کی جانب سے خوارج کے حوالے سے مثبت اور ذمہ دارانہ پالیسی کے عندیہ کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت وفاق کی ذمہ داریوں میں مدخل ہونے کی سعی ترک کرکے اپنے معاملات پر توجہ دے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری میں تازہ پیشرفت حوصلہ افزاء ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برف تیزی سے پگھل رہی ہے جس کے تازہ پیشرفت مزید حوصلہ افزا ہے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے کو سفیرکی سطح پراپ گریڈکرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے امیدکااظہار کیا ہے کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے درمیان تعاون، اقتصادی اور سکیورٹی تعاون اور پاک افغان تجارتی شعبے میں تعلقات کو مزید گہرا کرے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ 19اپریل2025کو ان کے دورے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مثبت سمت میں گامزن ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان کا افغانستان میں سفارتخانہ ناظم الامور کی سطح پر تھا۔جسے اب باقاعدہ سفیر کے عہدے سے بدل دیا گیا ہے جو مکمل سفارتی تعلقات کی نشانی ہے دیکھا جائے توپاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ اور بنیاد خوارج کی افغانستان میں کمین گاہیں ہیں اس حوالے سے دونوں ممالک کے رمیان تعاون کے بعد فتنہ خوارج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور جلد ہی خیبر پختونخوا کا امن لوٹ آئے گا اس حوالے سے صوبائی حکومت کو وفاق کی جو بھی حمایت درکار ہو اگر حکومت اس حد تک رہے اور خارجہ پالیسی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش سے باز رہے تو زیادہ مناسب ہوگا اس طرح کے معاملات میں سیاست سے بالاتر ہو کر تعاون اور حصول اعانت کی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے اور غلط فہمیوں پر مبنی امور سے اجتناب برتتے ہوئے یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کی مربوط کوشش کی جانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تاریخی غلطیوں کے جائزہ کی ضرورت