غیر نظریاتی سیاست کی پروان

ہمارے مُلک میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے ہونے والے عام انتخابات کا یہ کس قدر مضحکہ خیز پہلو ہے کہ ہر سیاسی جماعت میں نظریہ کا فقدان رہا ہے اور انتخابی منشور میں کوئی واضح نظریاتی نقطہ نظر نہیں ہوتا ۔ مَیں نے جب بھی اپنے احباب کے سامنے اس پہلو کا ذکر کیا تو وہ بھی میرا مذاق اُڑانے لگتے ہیں کہ ہم نے یہاں نظریہ یا ذہنی فکر کو مُلکی سیاست سے خارج کر دیا ہے ۔ اب یہ سیاست نہیں کاروبار ہے ۔ اسی طرح قومی اور صوبائی اسمبلی کے چند اراکین سے اس حوالہ بات کی تو وہ بھی ہنسنے لگے کہ ہم کسی نظریہ کے چکر میں پڑ کر کیوں وقت ضائع کریں کیونکہ اس سے زیادہ اہم کام گاؤں میں بجلی کی فراہمی اور اپنے حلقہ میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت سے فنڈ حاصل کرنا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مَیں نے کبھی اراکینِ اسمبلی کو نجی محفلوں میں جمہوری اقدار ، سیاست اور نظریاتی سوچ کے حوالے سے باتیں کرتے نہیں سنا ،بس کاروباری قسم کی گفتگو کہ فلاں ملازم کا تبادلہ ، منظور شدہ پراجیکٹ میں من پسند ٹھیکیداروں کا انتخاب اور قائمہ کمیٹیوں میں شمولیت وغیرہ ۔ ایسے میں نظریہ کی بات کرنے والے کو سادہ لوح سمجھا جاتا ہے ۔ پہلے پہل ہمارے مُلک میں سیاسی جماعتیں نظریاتی اعتبار سے ایک پہچان رکھتی تھیں ، سیاسی فکر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھی ، جماعت کے رہنماؤں کی بجائے لوگ اس کے منشورمیں دلچسپی لیتے تھے ۔ جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو سوشلزم کے علاوہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا گیا ، مذہبی جماعتوں نے ان نعروں کو ملحدانہ قرار دیا اور پیپلز پارٹی کے حمایتی کو کیمونسٹ کہنے لگے، صرف یہی نہیں بلکہ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ انتخابی عمل میں نظریاتی طور پہ انہیں اپنا مشترکہ مخالف سمجھا۔ مُلک میں آمریت اور خاص کر 1977سے یہ شعوری کوشش مسلسل جاری ہے کہ پہلے سیاست میں لیفٹ اور لبرل کی اصطلاحات ختم کر دی گئیں اور پھر شخصی سیاست کے ساتھ ساتھ سیاست میں مذہب کے پہلو کو نمایاں رکھنے کی اب تک کوششیں ہو رہی ہیں ۔ نظریہ کی بجائے اب شخصیت نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اکثریت سیاست کو شخصیت کے حوالے سے جانتی ہے اور پیمانہ یہ کہ فلاں کرپٹ اور فلاں بڑا ہی دیانت دار ہے ، ایک کے ہاتھ میں تسبیح اور شلوار قمیض پہن کر اقوام متحدہ میں تقریر کرتا ہے جبکہ دوسرا ہاتھ میں پرچی لیے دیگر مُلکی سربراہوں سے گفتگو کرتا ہے ۔ پاکستان کی سیاست میں بڑھتے ہوئے مذہبی اثرات نے بھی عوام کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ، اگرچہ کئی مذہبی جماعتوں کی انتخابی مقبولیت بہت کم ہے لیکن ان کی مذہبی سوچ کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا ۔ میڈیا پر بھی اس حوالہ سے گفتگو نہیں ہوتی کہ ہمارے ہاں فرقہ واریت میں اضافہ اور مذہب کے نام پر متشدد رویہ کیوں زیادہ ہو گیا ہے ۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سیاست میں انتہا پسند مکتبہ فکر کو کئی مدارس سے منسوب کیا جاتا رہا ہے اور اس کے اذیت ناک نتائج سامنے آئے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی سیاسی سوچ سے محض اختلاف کرنا بھی درست نہیں ، اسی طرح لبرل سوچ رکھنے والوں کو لا دینیت سے جوڑنا مناسب نہیں ۔ ضروری امر یہ ہے کہ سیاسی مکالمہ ہوناچائیے ، ہر مکتبہ فکر کا احترام لازمی ہے اور عوام خصوصی طور پہ نوجوان نسل کی آگاہی اور ذہنی نشو و نما ہماری اولین ترجیح ہو ۔ سیاسی سیمینار منعقد ہوں اور کسی خوف کے بغیر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی مکمل آزادی دی جائے ، شخصیت پرستی سے ہٹ کر جمہوری اقدار اور سیاسی فہم و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے نظریات کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہوگا ۔ ہمارے ہاں جب سے نظریاتی سیاست کو ختم اور آپس میںمکالمہ کرنا چھوڑ دیا ہے تو آج سیاست میں برداشت بھی باقی نہیں رہی ، گالم گلوچ عام ہے بلکہ پارلیمنٹ میں ہر روز کئی اراکین کے غیر اخلاقی الفاظ حذف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اب اسمبلی میں پارٹی کی سیاسی فکر کے تحت کسی مسّلہ کا حل پیش نہیں کیا جاتا جبکہ اراکین کی ذات اور ماضی میں مخالف جماعت کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ مسائل کا نظریاتی بنیاد پر حل ممکن نہیں رہا ، پہلے جب انتخابات میں عوام کے درمیان نظریاتی تقسیم تھی تب اسی بنیاد پر منشور میں معاشی نکات بھی تھے لیکن اب گزشتہ کئی انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی قابل ذکر معاشی منشور نہیں ہوتا کہ زمینوں کی حد ملکیت کیا ہوگی ، صنعت میں کیا اصلاحات ہوں گی ، دفاعی اور فلاحی بجٹ میں کیا توازن ہو گا ۔ اس حوالہ سے سب جماعتیں خاموش ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں ، بس نمائشی تبدیلی کے نعرے پر عوام کو خوش کرنا مقصود ہے ۔ عوام بھی کسی سیاسی نظریہ میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ کسی ایسی سوجھ بوجھ کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ جماعتیں جو لبرل سیاست کے حوالے سے پہچان رکھتی تھیں ، اب وہ بھی ضرورت پڑنے پر محض انقلابی لیبل کی آڑ لیتی ہیں کہ رہنماؤں میں روشن خیالی نہیں رہی ۔ اگر اپنے نظرئیے پہ کار بند رہتے تو یوں محض نعروں کی آڑ میں اپنی کوتاہی اور نا اہلی کو چھپا نہ رہے ہوتے ۔ حالت اب یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک ایک صوبہ تک محدود ہو چکی ہیں اور عوام کا ایک خوشحال طبقہ شخصیت پرستی میں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور ایک اکثریت کی غربت اپنے معاشی مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے ۔

مزید پڑھیں:  شملہ معاہدہ کاخاتمہ ایک معمہ