پاک افغان تعلقات میں بہتری

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات کے بعد روس کی جانب سے بھی ماسکو کے لئے افغان سفیر کی نامزدگی کی قبولیت خطے کے ممالک کے درمیان ماضی کو پس پشت ڈال کر تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی وہ کوشش ہے جس سے بڑی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں چین کے ساتھ بھی افغانستان کے سفارتی تعلقات ہیں اور حال ہی میں افغانستان میں سہ فریقی تعاون پر بھی اتفاق ہوا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز اعتماد کی بحالی سے بڑھ کر اعتماد کے ساتھ باہمی معاملات کو آگے بڑھانے کا ہے اس سے مسلسل رابطے کی ضرورت کا دونوں جانب سے عملی اظہار بھی ہو رہا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ میں دونوں رہنمائوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ دورہ کابل کے دوران کیے گئے فیصلوں پر اب تک کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے باہمی اعتماد اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔اس موقع پر ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان مجوزہ ریلوے منصوبے پر بھی بات ہوئی۔ دونوں ممالک نے اس منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے زور دیا کہ اس کا فریم ورک معاہدہ جلد از جلد حتمی شکل دی جائے تاکہ خطے میں تجارتی روابط اور زمینی رابطوں کو فروغ دیا جا سکے۔دریںا ثناء روس نے ماسکو کیلئے افغان سفیر کی نامزدگی سرکاری سطح پر قبول کر لی۔حالیہ دنوں نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے دروہ افغانستان کے موقع پر ہونے والی مفاہمتی بات چیت کے علاوہ پاک چین اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطحی معاملات کے طے پانے سے افغانستان کی پالیسی میں جس تبدیلی کی توقع تھی اس کا عملی اظہار نظر آنے لگا ہے۔پاکستان اور فغانستان کے درمیان خوارج پیچیدگی کا باعث تھے اس حوالے سے اب معاملات تیزی کے ساتھ اعتماد کا باعث صورتحال میں تبدیل ہونے لگی ہیں افغانستان اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کے پاکستانی مطالبے پر پیشرفت کر رہا ہیخوش آئند امر یہ ہے کہ کابل میں19 اپریل کو ہونے والی گزشتہ ملاقات کے فیصلوں پر بھی مکمل عملدرآمدجاری ہے ۔ 2022 اور2023 میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ٹرانس ریلوے منصوبے پر جوفیصلہ کیا گیا تھا اسے بھی عملی جامہ پہنانے پر کام جاری ہے چین اس منصوبے میں مالی معاونت پر آمادہ ہے اور جون کے پہلے ہفتے میں ازبکستان میں دستخط متوقع ہیں۔ پشاور سے کابل ہائی وے کی تعمیر بھی اس کا حصہ ہے، جو گوادر بندرگاہ کی افادیت بڑھائے گی۔ چین سی پیک 2کے لیے سنجیدہ ہے امر واقع یہ ہے کہ بیجنگ میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی سہ فریقی اجلاس نے وسیع تر علاقائی انضمام اور خوشگوار تعلقات کا نیا باب کھل چکا ہے ایک خاص وقت اور حالات میںعالمی اور علاقائی تنازعات کے وقت، پڑوس میں ریاستوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کی اہمیت نظر انداز کرنے کا حامل امر نہیںکابل کو ملٹی بلین ڈالر کی سی پیک اسکیم میں شامل ہونے کی دعوت طالبان حکومت کے لئے بڑی پیشکش ہے جس سے ا فغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گابیلٹ اینڈ روڈ تعاون کووسعت دینے اور سی پیک کی افغانستان تک توسیع کا معاملہ علاقائی رابطوں کی مضبوطی کا حامل امر ہے جس کے بعد افغانستان میں دہشت گرد گروپوںکے خلاف موثر کارروائی کی ذمہ داری کا وعدہ پورا کرنے میں سنجیدگی اختیار کرنا افغانستان کی بڑی ذمہ داری ہے پاکستان اور افغانستان میں مکمل اعتماد اور فتنہ خوارج و فتنہ الہند کا خاتمہ ہی سے اہم منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنے کا راستہ کھل جائے گا چین متعلقہ ممالک پر زور دے رہاہے کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کریںاوردہشت گرد قوتوں کا مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جائے امید ہے کہ اب ان معاملات کو سب کے لئے اطمینان بخش طور پر حل کیا جا سکے گا۔اگرسی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جاتا ہے اور چین اس ملک میں اپنی سرمایہ کاری بڑھاتا ہے تو یہ علاقائی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تجارت اور سلامتی لازم و ملزوم ہیں، اور افغان طالبان کو آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے، انہیں اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے کے مکمل خاتمے تک سخت کارروائی کرنی چاہیے۔سہ فریقی تعاون اور تجارتی سرگرمیاں تمام ملوث افراد کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکتی ہیں، خاص طور پر افغانستان میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اگر طالبان افغانستان کے پڑوسیوں کو اپنی طرف سے دہشت گردی کے لیے صفر برداشت کا یقین دلاتے ہیں، اور افغان عوام کو بنیادی حقوق دینے کا وعدہ کرتے ہیں، تو یہ ان کی حکومت کی بین الاقوامی قبولیت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔اس ضمن میں پاکستان چین اور روس کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بطور خاص اہمیت ہے مزید یہ کہ پاکستان عالمی فورمز پر افغانستان حکومت کی نمائندگی اور ان کے موقف کو بہتر طور پر پیش کرنے کی ذمہ داری نبھا سکتا ہے یوں طالبان عبوری حکومت کے لئے دنیا کے دروازے کھل جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کی ہٹ دھرمی اور دروغ گوئی