میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

پشاور میں مبینہ طور مضر صحت اور باسی و زہریلی بیکری کی اشیاء کھانے سے بچہ جاں بحق اور والدین اور بھائی کے بے ہوش ہونے کا واقعہ اس امر پردال ہے کہ مضر صحت غیر معیاری اور باسی اشیاء کی فروخت آزادانہ طور پر جاری ہے اور پرسان حال کوئی نہیں متعلقہ اداروں اور حکام نے چپ سادھ رکھی ہے ان کی ملی بھگت اور مبینہ بھتہ وصولی کے الزامات بھی خلاف واقعہ نہیں ورنہ صوبائی دارالحکومت میں اس طرح کا واقعہ رونمانہ ہوتا امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور شہر میں غیر معیاری اور مضر صحت مٹھایاں کھلے عام فروخت ہورہی ہیںجس پر کوئی چیک نہیں ہے شہر کے مختلف علاقوں میں قائم بیکری اوردکانوں میں غیر معیاری اشیاء کی آزادانہ فروخت کی جارہی ہے جن میں غیرمعیاری گھی، رنگ اور دیگر اشیاء استعمال ہوتاہے، محکمہ فوڈ و ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کبھی کبھار نمائشی کارروائی اور ڈنگ ٹپائو سے اس طرح کی صورتحال کو قابو میں لانا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ مضر صحت اشیاء کا کاروبار کھلے عام اور دھڑلے سے جاری ہے اس واقعے میں جہاں بیکری مالک کے خلاف مقدمہ کا اندراج ہوا ہے وہاں ہونا تو یہ چاہئے کہ متعلقہ سرکل میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خوردنی کی فروخت یقینی بنانے والے تمام محکموں اور متعلقہ عملے کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرائی جاتی جن کی مجرمانہ غفلت ایک معصوم کی جان لے گئی یا کم ازکم ان کو فوری معطل کرکے محکمانہ تحقیقات کا آغاز کیا جاتا لیکن اس کا کوئی امکان نہیں اس طرح کے واقعات کا بار بار پیش آنا اور ہوٹلوں سے لے کر بیکری تک یہاں تک کہ سڑکوں کے کنارے اور دکانوں میں انتہائی غلیظ ماحول میں اشیائے خوراک کی تیاری اور فروخت پکار پکار کرمتعلقہ حکام کی غفلت و لاپرواہی کی گواہی دے رہی ہوتی ہے مگر افسوس اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا شاید حکام کو اس کا انتظار ہے کہ کوئی بڑا واقعہ ہوجائے یا پھر کسی حکومتی عہدیدار اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہو وزیر اعلیٰ ‘ وزیر خوراک اور چیف سیکرٹری کو اس سنگین غفلت اور بدترین صورتحال کا فوری نوٹس لے کر اصلاح احوال کے اقدامات یقینی بنانے پر توجہ دینا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  کہیں لوڈ شیڈنگ کہیں ہائی وولٹیج