ترکیہ اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ کارروائی میں انتہائی مطلوب داعش کمانڈرکی کو گرفتاری اہمیت کا حامل امر ہے ترک نژاد شدت پسند افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں داعش کیلئے سرگرم تھا۔ وہ یورپ اور وسطی ایشیاء سے شدت پسند عناصر کو پاک افغان خطے میں منتقل کرنے، میڈیا پروپیگنڈا چلانے اور داعش کی کارروائیوں کی نگرانی بھی کرتا تھا اس نے ترکی اور یورپ میں کنسرٹ جیسے عوامی اجتماعات پر حملوں کی منصوبہ بندی کے احکامات بھی جاری کئے تھے۔مذکورہ دہشت گرد داعش کے اندر”سب سے اہم ترک میڈیا آپریٹو” بتایا جاتا ہے جو ترک اور انگریزی زبان میں شدت پسند مواد تیار کرتا رہا اور داعش کی بھرتی، مالی معاونت اور لاجسٹک سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہا۔ان کی گرفتاری کے بعد ان تمام معاملات کا ٹھپ ہو جانا فطری امر ہے یہ گرفتاری دہشت گردی تنظیم کا نیٹ ورک توڑنے اور پراپیگنڈہ و بھرتی ختم کرنے کی حامل کارروائی ہے ترک میڈیا کے مطابق ایم آئی ٹی کو اطلاع ملی تھی کہ مبینہ دہشت گرد غیر قانونی طور پر ترکیہ سے افغانستان منتقل ہوا اور وہاں سے پاکستان جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس اطلاع پر پاکستان افغانستان سرحد کے قریب مشترکہ ٹارگٹڈ کارروائی میں ان کو گرفتار کیا گیاترکیہ کی جانب سے حالیہ پاک بھارت لڑائی میں پاکستان کی جس طرح ہر سطح پر مدد کی وہ قابل تحسین امر ہے اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی سے قابل قدر اعتماد کے تعلقات تھے تاہم مشکل وقت میں ان تعلقات کا کسوٹی پر عملی طور پر پورا اترنے کا عمل غیر معمولی تھا جس سے تعاون اور قربت کے مزید در وا ہوئے تازہ واقعہ تعاون کی نئی سطح کا مظہر ہے افغانستان ‘ پاکستان ‘ ایران اور ترکی کے درمیان اس طرح کے مزید تعاون اور رابطوں کی ضرورت ہے تاکہ را سے لے کر داعش اور خوارج تک سبھی قسم کے عناصرکے نیٹ ورک اور آمدورفت کی مکمل طور پر نگرانی کرکے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اسے ختم کرکے خطے میں استحکام امن کی راہ ہموار کی جائے دونوںملکوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا نتیجہ خیز اور موثر ہونا فطری امر ہوگا حالیہ کارروائی اس کی بڑی مثال ہے اس تعاون کو مزید مربوط بنانا اور بڑھانا دونوں ملکوں کی ضرورت اور مفاد کا تقاضا ہے۔
