صوبائی بجٹ اوریونیورسٹیاں

پچھلے برس تک یونیورسٹیوں کو گرانٹ وفاقی بجٹ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کو ملنے والے65ارب روپوں میں سے ملتا تھا خیبر پختونخوا کی34 سے نصف یونیورسٹیاں جو گزشتہ دس برس میں بنی ہیں ان کو اب تک وفاقی بجٹ سے کوئی گرانٹ نہیں ملی جبکہ پرانی یونیورسٹیوں کو ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سالانہ گرانٹ چار قسطوں میں دیتی تھی اگر چہ یہ گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی لیکن کچھ نہ دینے سے یہ جو کچھ ان یونیورسٹیوں کو مل رہا تھا یہ بھی غنیمت تھا ۔اس برس کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ صوبوں کو بجٹ میں سے پیسے نہیں دے گی اور اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم اب صوبوں کی ذمہ داری ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اب صرف وفاق میں موجود یونیورسٹیوں کو گرانٹ دے گی اور صوبوں کی یونیورسٹیوں کو کوئی گرانٹ نہیں دے گی ۔ سندھ اور پنجاب نے پہلے ہی اپنی صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا لیے ہیں اور وہ بجٹ میں اپنی اپنی یونیورسٹیوں کو گرانٹس بھی دے رہے ہیں ۔جون کے مہینے میں صوبائی بجٹ پیش ہوگا اس بجٹ میں اس برس لازماً یونیورسٹیوں کیلئے ریکرنگ گرانٹس کے طور پر پیسے رکھنے ہوں گے ۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور یہ حکومت گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چلی آرہی ہے ۔ تحریک انصاف کا منشور ہی یہی تھا کہ وہ انسانوں پر سرمایہ کاری کریں گے خصوصاً نوجوانوں پر سرمایہ کریں گے جو پوری دنیا کرتی ہے ۔ مگر ابتک اس طرح کی سرمایہ کاری نوجوانوں پر نہیں کی گئی ۔ تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جن پر پوری دنیا میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے ان شعبوں سے یہ توقع کرنا کہ یہ اپنا خرچہ خود اٹھالیں گے اور پیسے پیدا کریں گے صحیح نہیں ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی ان شعبوں سے حکومت کماتی نہیں ہے بلکہ ان شعبوں پر دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ خرچ کرتی ہے ۔ بنگلہ دیش، ویت نام اور افریقہ کے کئی ایک ممالک یہ کام کرکے ترقی کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے نئی یونیورسٹیاں کسی سکول میپنگ کے نتیجے میں نہیں بنیں مگر اب بن گئی ہیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کو اس سطح تک لے کر آئے جہاںوہ حکومت کی توقع کے مطابق اور دنیا میں رائج اصولوں کے تحت نوجوان نسل کو اعلیٰ تعلیم دے سکیں ۔ حکومتی سطح پر تعلیم کے حوالے سے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔یہ تو واضح ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت اور خاص کر وزیر اعلیٰ اور وزیر برائے اعلیٰ تعلیم یہ چاہتے ہیں کہ وہ تعلیم کے شعبہ میں کچھ کرجائیں اور صوبہ کے نوجوانوں کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر سہولیات دیں ۔ اس صوبہ کی خوش قسمتی بھی ہے کہ اسے ایک نوجوان وزیر تعلیم ملے ہیں جو خود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ان کو یونیورسٹیوں کے مسائل کا بھی پتہ ہے اور وہ دلچسپی بھی لے رہے ہیں مگر شاید ان کی ٹیم کمزور ہے جو ان کے احکامات پر فوری عمل درآمد کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔ گزشتہ کئی برسوں سے صوبہ بھر کی یونیورسٹیوں کی مالی حالت بہت زیادہ خراب رہی ہے اور یونیورسٹیوں کو ماہانہ تنخواہ اور پنشن دینے میں بھی مشکلات رہی ہیں ۔ اب اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان ان یونیورسٹیوں کو گرانٹ نہیں دے گی تو یہ ساری یونیورسٹیاں عملاً بند ہوجائیں گی جس سے لاکھوں طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا اور صوبائی حکومت کو مشکل پیش آئے گی اس لیے صوبائی بجٹ میں دیگر محکموں اور اداروں کی طرح یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ رکھ کر حکومت اس مشکل وقت میں یونیورسٹیوں کو بچا سکتی ہے ۔ بجٹ میں صر ف اخراجات جاریہ کے مد میں ہی نہیں بلکہ پرانی یونیورسٹیوں کے پنشن کے مد میں بھی رقم مختص کرنی ہوگی اس لیے کہ ہزاروں کی تعداد میں پنشنرز پنشن نہ ملنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ایک کمیٹی صوبائی حکومت نے بنائی ہے کہ وہ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے لیے کام کرے گی ۔ یہ کام آج سے دس برس پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر صوبائی بیوروکریسی اس کام کو کرنے میں سنجیدہ نہیں تھی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صوبائی ہائرایجوکیشن کمیشن کے بننے سے بیوروکریسی کا عمل دخل یونیورسٹیوںمیں ختم ہوجائے گا اس
طرح ان کی مداخلت کا راستہ بند ہوجائے گا جو انہیں کسی طور قابل قبول نہیں تھا ۔ ساتھ ہی اب صوبہ میں34یونیورسٹیاں ہیں اور اب ان یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر نہیں ہیں بلکہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں اس لیے ان کا ایک مکمل چانسلر سکرٹریٹ ہونا چاہئیے جو یونیورسٹیوں کے معاملات دیکھے ۔یہ سکرٹریٹ موجود ہ یونیورسٹیوں میں سے لیے گئے سٹاف پر مبنی ہونا چاہئیے جو یونیورسٹیوں کے مسائل جانتے ہیں اور ان کے حل کرنے لیے بنیادی کام کرسکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے یونیورسٹیوں کے معاملات ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ دیکھتی ہے جو کہ کالجز کیلئے ڈیزائن کیا گیا محکمہ ہے ۔ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ یونیورسٹیوں کو جو کہ ایکٹ کے حساب سے خود مختار ہیں ان کو بھی اپنے ذیلی کالجوں کی طرح دیکھتی ہے اور ان سے بھی وہی سلوک کرتی ہے ۔ حالانکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ جب تک چانسلر سکرٹریٹ نہیں بنے گا یونیورسٹیوں کی یہی حالت رہے گی ۔ یونیورسٹیوںکو مالی طور خود مختار بنانے کیلئے ہر برس ان یونیورسٹیوں کا ایک سٹریٹیجیک پلان اور بزنس پلان ہونا چاہیئے۔ اور چانسلر گائیڈ لائنز ہونی چاہئیں ۔جن پر ہر برس یونیورسٹیاں اپنا اپنا پلان بنائیں اور یونیورسٹیوں کے باڈیز میں ان ماہرین کو شامل کیا جائے جو ان معاملات کی سمجھ رکھتے ہوں ۔
مگر یہاں سب کچھ سیاسی خوشنودیوں کے لیے ہوتا ہے اور حکومت کے حلقوں میں وہ لوگ سرگرم ہوتے ہیں جو عملاً کسی بھی کام کے نہیں ہوتے لیکن یہ موقع پرست افراد اپنی ذاتی فائدے کے لیے ہمیشہ حکومت کو ٹرک کے بتی کے پیچھے لگا لیتے ہیں اور حکومتوں اور یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی مالی حالت بھی ٹھیک نہیںرہتی اور انتظامی طور پر بھی یونیورسٹیاں مسائل کا شکار ہوتی ہیں ۔اس لیے بجائے چند مفاد پرست کو اپنے اردگر د جمع کرکے اداروں کو تباہ کرنے کے اگر ایک مکمل سکرٹریٹ بنا دیا جائے تو اس سے ادارہ جاتی طور پر یونیورسٹیوں کو فعال کیا جاسکے گا اور حکومتی پالیسیوں کوبھی حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے ۔ صوبائی حکومت کو نوجوانوں پر سرمایہ کاری کا آغاز کرنا ہوگا اس لیے کہ ہمارے صوبہ میں زراعت اور دیگر شعبے بھی نہیں ہیں اس لیے نوجوانوں کو متبادل ہنر سکھانے اور تعلیم دینے کا نظام جب تک موثر نہیں ہوگا اس صوبہ کے نوجوان دیگر صوبوں کے مقابلے میں آگے نہیں جاسکیں گے ۔ صوبائی حکومت کو اپنی جامع تعلیمی پالیسی بھی بنانا ہوگی جس میں سکول سے لیکر یونیورسٹی سطح کی موجودہ نظام کا جائزہ لے کر مستقبل کے ضروریات اور چیلنجوں کے مطابق نئی تعلیمی پالیسی واضح ہو اور پھر مرحلہ وار اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں تو اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو فعال کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کام یونیورسٹی کے اساتذہ اور ایڈمن آفیسر ہی کرسکتے ہیں اس کام کی توقع بیوروکریسی سے کرنا بے کار ہے اس لیے کہ ان کی اس سلسلے میں تربیت نہیں ہوتی اور وہ چند مہینوں کے بعد ایک سیٹ سے دوسرے پر ٹرانسفر ہوجاتے ہیں اور بیورکریسی میں سب کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کہیں ایڈمنسٹریشن کی جاب ملے وہ کہیں اے سی ، ڈی سی یا پھر کمشنر لگیں ۔ یونیورسٹیوں کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا اور اس پر مستقل عمل درآمد کروانے کے لیے چانسلر سکرٹریٹ میں یونیورسٹیوں ہی سے اپنے اپنے شعبہ کے ماہرین ہوں تو یہ ممکن ہے۔ اگر چانسلر سکرٹریٹ کے پلان یا ورکنگ پیپر درکار ہیں تووہ ہم فراہم کرسکتے ہیں ۔ سر دست اس وقت یونیورسٹیوں کو صوبائی بجٹ کا حصہ بنانا ہوگا اور یونیورسٹیوں کی مالی ذمہ داریاں صوبائی حکومت کو اٹھانا ہوگی ورنہ دیر ہوجائے گی اور یونیورسٹیوں کا مالی بحران ان یونیورسٹیوں کو نگل لے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا