وائے ناکامی ‘ متاع کارواں جاتا رہا

لوگ مل کر اپنی رہن سہن اور روایات و رسومات کے جو مختلف طریقے مقرر کرکے ایک نظام زندگی تشکیل دیتے ہیں عرف عام میں اسے معاشرہ کہا جاتا ہے معاشرہ از خود کوئی چیز نہیں یہ لوگوں ہی سے مل کر بنتا ہے مگر لوگ اپنے آپ کو دوشی نہیں ٹھہراتے اور ساری خرابیوں کو معاشرے کے کھاتے میں ڈال ڈیتے ہیں ہمارے معاشرے میں بھیڑچال اور نقالی بہت زیادہ ہے اعلیٰ معاشرتی اقدار کے امین اور حامل ہونے کے باوجود ہم مغرب اور اغیار کی نقالی ان کا رہن سہن ‘ لباس اور طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ہم اس نصیحت پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے
ہم اس قدر پھسلے ہوئے ہیں کہ سارے سلیقے اور قاعدے بھلا چکے ہمارے معاشرے کا المیہ ہی یہ ہے کہ ہر شخص خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں مگر دوسروں کو الزام دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اگر ہر شخص خود کو بدلنے اپنی اصلاح کے لئے تیار ہو جائے تو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے مگر یہاں کہا یہ جاتا ہے کہ میرے ایک سنورنے سے کونسی معاشرتی تبدیلی آئے گی پورے معاشرے کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے یہی وہ سوچ ہے جو خرابی کی جڑ ہے جو تعمیر انسانیت اور معاشرے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ اپنے اندر اچھے اوصاف پیدا کرنے کی بجائے دوسروں کی اندھی تقلید میں اور زیادہ غیر ا خلاقی معاملات کی دلدل میں پھنستا جائے ۔ حالانکہ قرآنی اصول بھی یہ ہے کہ فرد واحد کی اصلاح کے بغیر اصلاح معاشرہ کا خواب کبھی تعبیر نہیں ہو سکتا اور اللہ تبارک تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ خود کو نہ بدلیں اصلاح معاشرے کی ا بتداء فرد سے لے کر افراد اور معاشرے تک کا ایک مربوط عمل ہے جسے اختیار کرتے ہوئے انفرادی سوچ کی بجائے اجتماعیت کو غالب لانے کی سعی ہونی چاہئے اس کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہر آدمی یہ نظریہ رکھے کہ میرے ٹھیک ہونے سے ہی معاشرے کی اصلاح ہو گی اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی آزادی ‘ عزت و احترام اور حقوق کا خیال لازم و ملزوم ہے جسے اصلاح معاشرہ کا ستون قرار دیا جائے تو موزوں ہو گا ابتدائے آفرینش سے انسانوں میں حقوق کی جنگ کہیں سرد اور کہیں گرم صورت میں جاری ہے گویا یہ انسانیت کا عالمی اور آفاقی مسئلہ ہے لیکن ا لمیہ یہ ہے کہ یہ تمام تر کوششیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہیں اور اپنے ذمہ دوسروں کے حقوق پورے کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں جبکہ حقدار اور حق دینے والا دونوں ہی معاشرے کا حصہ ہیں اور ظاہر ہے کہ جب طاقتور اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر دوسرے کا حق غصب کرے گا اور اپنے ذمہ حقوق ادا کرنے سے بے اعتنائی کرے گا تو اس امیر و غریب طاقتور اور ضعیف بااثر اور بے اثر کی خود ساختہ طبقاتی تقسیم معاشرتی بگاڑ اور تنازعات کو
جنم دے گی جس کا اثر عام لوگوں پر بھی پڑے گا اور کوئی شخص کسی پر اعتماد کرکے اس سے کوئی معاملہ نہیں کرے گا یوں سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو گاہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ معاشرتی زندگی کو بہتر اور موافق کرنے کے لئے اپنے حقوق کا خیال کم اور دوسروں کے حقوق کا خیال زیادہ کرنا ہو گا معاشرے میں قابل قدر انسان ہی وہ ہے جو من حیث المجموع بھلائی کی خاطر اپنے واجبی حقوق سے کنارہ کش ہوجائے دوسروں کو اس کی نصیحت کرنا کوئی مشکل کام نہیں مگر خود سے اس پر عمل کرنا نہایت مشکل اور ایثار طلب کام ہے معاشرتی بھلائی کے لئے معاشرے میں اونچ نیچ اور احساس کمتری پیدا کرنے والی باتوں اور کاموں سے احتراز کرنے کی ضرورت مسلمہ ہے معاشرے میں مثبت چیزوں کی طرف کم اور منفی لغو جھوٹ دھوکہ اور من پسند خیالات کی ترویج بلا سوچے سمجھے کرنے کا رجحان زیادہ ہے اور ہر کوئی اس طرف مائل ہے مثبت پہلوئوں اور رویوں کی طرف کم ہی توجہ ہوتی ہے جو اس تاثر کے عام کرنے کی بڑی وجہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہو کر یہ سوچتے ہوئے غلط روش برقرار رکھتے ہیں
کہ جب سارے ہی غلط ہیں تو ہم کو صحیح ہو کر کیا کرنا ہے بس ادھر چلو جدھر کی ہوا چلے معاشرے کی اصلاح بطور مسلمان اور محب وطن پاکستانی یا پھر ایک ذمہ دار شہری والدین ‘ اساتذہ ‘ صحافی و دانشور ہم سب کی ذمہ داری ہے پست خیالی سے باہر نکلنے کی ہمت پیدا کیجئے اور اپنے اچھے اقدار کی بحالی و ترویج میں اپنا کردار ادا کیجئے تاکہ تہذیب و ثقافت کے نام نہاد مغربی علمبرداروں اور اسلام کو قدامت پسندی کا طعنہ دینے والے عناصر کو معلوم ہو کہ اسلامی معاشرے اور مشرقی اقدار کی مثال پیش کرنا مشکل ہے ہم اسلامی معاشرے اور مشرقی تہذیب و اقدار کا مطالعہ کریں تو منفی نہیں مثبت اور نفع بنی نوع انسان اور احترام آدمیت ہی کے نمونے سامنے آئیں گے نسل نو جس طرح مغربی اقدار کی طرف مائل ہے ان کا رہن سہن ان کی سوچ خورد ونوش ‘ لباس اور سوچ جس طرح مادیت کی طرف رجحان رکھتی ہے اس کا راستہ روکناہو گا جہاں ہمارے معاشرے میں اچھے اقدار کی کمی نہیں وہاں عدم برداشت ناانصافی حق تلفی دوسروں کے حوالے سے منفی خیالات وجذبات اور اس کا لفظوں میں اظہار بد اخلاقی اور بداطوار کو برانہ جاننے رشوت و بدعنوانی کو معاشرے میں حد درجہ معیوب سمجھے جانا المیہ ہے اس کے ساتھ ساتھ نسلی منافرت ‘ تعصب اور عدم برداشت بطور خاص پریشان کن ہیں سب سے بڑھ کر ہمارا معاشرہ دہشت گردی کی جس لہر اور لعنت کا شکار ہے وہ ہمارے دامن پر دھبہ ہے ۔ ا صلاح معاشرہ سے ہی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے کوشش ہونی چاہئے کہ معاشرہ میں میانہ روی اور سادگی کو فروغ ملے اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے چادرسے پائوں باہر نکالنے کی دوڑ ختم ہو جو فساد کی جڑ اور بربادی معاشرہ کا بڑا سبب ہے۔

مزید پڑھیں:  نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے ''مسلم حکمرانو''