ویب ڈیسک: امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان میتھیو ملر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے ۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان میتھیو ملر نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ غزہ سے متعلق پالیسی پر بائیڈن کابینہ میں اختلافات تھے خاص طور پر اس بات پر کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا جائے یا نہیں۔
انٹرویو میں انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2 ہزار پانڈ وزنی بموں کی ترسیل اس لیے روک دی تھی کہ یہ ہتھیار غزہ میں نامناسب طریقے سے استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔
سابق امریکی ترجمان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مئی 2024 سے جنوری 2025 تک ہزاروں فلسطینی شہری مارے گئے حالانکہ ہم اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دبا ڈالنے میں مزید کچھ کرسکتے تھے۔
جنگ بندی میں رکاوٹ کون تھا کے سوال پر متھیو ملر نے بتایا کہ ہم نے صرف حماس کو ہی نہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی مذاکرات میں رکاوٹ ڈالتے دیکھا۔ ہمیں اسرائیل پر مزید سخت موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔
امریکا کے سابق ترجمانِ وزارت خارجہ میتھیوملر نے کہا کہ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے تاہم میرے خیال میں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام درست نہیں۔
میتھیو ملر نے مزید وضاحت کی کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا نسل کشی اسرائیل کی ریاستی پالیسی کے تحت ہوئی یا یہ انفرادی واقعات ہیں۔ ریاستی سطح پر جنگی جرائم کا ارتکاب ایک کھلا سوال ہے، کچھ انفرادی واقعات میں اسرائیلی فوجی نسل کشی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
