نہ گنا اور نہ گنڈیری

چند روز پہلے ایک عجیب و غریب خبر نظروں سے گزری ہے، سوچا تبصرہ کرنا مناسب ہو گا، خبر کے مطابق پاکستان نے پچھلے سال کے مارچ سے اس سال یعنی 2025ء کے جنوری تک کم و بیش بارہ ملکوں سے چینی درآمدت کی ہے جن میں ملائشیائ، جرمنی، تھائی لینڈ، امریکہ، عرب امارات، ڈنمارک، چین، بھارت، فرانس اور کوریا وغیرہ شامل ہیں، ہم تو بچپن سے یہی پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو وافر مقدار میں گندم، کپاس، پھل اور سبزیاں پیدا کرکے نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے اور اس سے قیمتی زرمبادلہ کماتا ہے، اب کتابوں میں جھوٹ تو نہیں لکھا ہے لیکن آئے روز کبھی آٹے کا بحران اور کبھی پیاز، ٹماٹر اور آلو کا فقدان، ہم نے یہ بھی پڑھا سنا تھا کہ پاکستان نہ صرف بڑی مقدار میں گنا پیدا کرتا ہے بلکہ یہاں ہر جگہ چینی کے کارخانے بھی موجود ہیںلیکن اس کے باوجود یا تو چینی غائب یا پھر اس کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہے، کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے عام عوام کی ایک بنیادی ضرورت کو درآمد کرنا پڑتا ہے، اور تو اور عرب امارات جیسے ملک سے بھی چینی درآمد کی گئی ہے کہ جہاں گنا تو کیا گنڈیری بھی نہیں ملتی ہے، یقینا دال میں کچھ کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے کہ دس بارہ ملکوں سے چینی منگوانے کی کیا ضرورت تھی، اتنا ہی قحط تھا تو دو چار ملکوں سے منگوا لیتے، وطن عزیز کا قیمتی زرمبادلہ دس بارہ مختلف ملکوں کو کیوں بھیجا گیا، جب آٹے کا بحران ختم ہوتا ہے تو چینی کا بحران سر اٹھا لیتا ہے، اور چینی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، برآمدت کے معاملے کے علاوہ یہ یوں ہی ہے جیسے اچھی بھلی چلتی پھرتی چینی کو اغوا کر لیا جائے اور منہ مانگی قیمت پر رہا کیا جائے، اگر ملکی ضرورت کے مطابق یا اس سے زیادہ ملوں میں چینی بنتی رہے تو اس کی مانگ نہیں بڑھتی اور قیمت میں استحکام رہتا ہے یا پھر قیمت کم ہو جاتی ہے، ایسے میں منافع خور چینی کو اغوا کرتا ہے اور بڑی تعداد میں اسے ذخیرہ کیا جاتا ہے، چینی کے کارخانے بھی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہوتے ہیں، چینی دستیاب نہیں ہوگی تو ظاہر ہے اس کی طلب اور قیمت میں اضافہ ہو گا، اب درآمد کررہے ہیں اور پہلے خود ہی حکومت نے زائد چینی کی برآمد کی اجازت دی، اس سے چینی کی قیمت بڑھی اور اس کی قلت کا جو سلسلہ شروع ہواس نے رکنے کا نام نہ لیا ، چند روز قبل تک حکومت چینی کے کارخانوں کو ایک سو چالیس روپے کلو پر چینی دینے کا پابند بنا رہی تھی لیکن اب خود ہی یہ قیمت ایک سو ساٹھ روپے مقرر کی ہے، چینی کی برآمد سے پہلے اسی چینی کی یہ والی قیمت ایک سو تیس روپے تھی اب ایک سو ساٹھ اور دکان سے عام آدمی کیلئے یہی چینی ایک سو نوے روپے کلو ہے، بجائے اس کے کہ حکومت ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کر کے چینی کی اصل قیمت بحال کرتی، حکومت نے وہ راستہ اختیار کیا کہ جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے اور جس کا سارا فائدہ حکومت میں موجود چینی کے کارخانوں کے مالکوں کو ہو رہا ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اسی حکومتی رویے کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں چینی کی پیداوار میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور یہی وہ اصل وجہ ہے کہ جس کے سبب سستے داموں برآمد کی گئی چینی اب تقریبا دوگنی قیمت پر درآمد کی گئی ہے اور اس سے قرض میں ڈوبے ملک کے خزانے کو دوہرا نقصان پہنچایا گیا، یہ بالکل واضح ہے کہ بغیر دور اندیشی اور کسی منصوبہ بندی کے چینی کے کارخانوں کے مالکوں کو نوازنے کیلئے چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی جس کے باعث ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور اب بارہ ملکوں سے وہی چینی درآمد کی گئی، خیر ہم نے بھی سارے کام اور ہر قسم کی خرابی کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی ہوئی ہے، جناب چینی اور آٹے میں بہت فرق ہے، آٹے کے بغیر ہماری زندگی کا تصور محال ہے جبکہ چینی کے استعمال نہ کرنے یا کم استعمال کرنے میں ہمارے لئے بے شمار فائدے ہیں، اگر یہ قوم ، معذرت چاہتا ہوں، ہجوم کیلئے قوم کا لفظ استعمال کیا، بہرحال اگر ہم صرف ایک ہفتے کیلئے چینی کی خریداری ترک کر دیں تو اس کی قیمت میں نمایاں فرق آئیگا اور اگر ہم نے ایسا ایک ماہ یا ایک سال یا ہمیشہ کیلئے کر دیا تو پھر چینی مفت ملا کریگی، یہ چینی جس کا ہم ہر چیز میں بلا جواز اور بلا ضرورت استعمال کرتے ہیں اسے غذائی و طبی ماہرین کی جانب سفید زہر قرار دیا گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چینی کا باقاعدہ اور طویل عرصے تک استعمال انسانی جسم کے مختلف اعضاء کو ناکارہ بنا دیتا ہے، جو لوگ چینی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں دل کی بیمارویں کی وجہ سے موت کا خطرہ چالیس فیصد تک بڑھ جاتا ہے، اسی طرح چینی کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے، جب بچے کچھ میٹھا کھانے کیلئے مسلسل رو رہے ہوں تو ان کو نہ کہنا مشکل ہے لیکن یاد رکھیں آپ ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کرکے
ان کا ہی بھلا کر تے ہیں، اور چینی کے استعمال کے طویل مدتی خطرات میں وزن میں اضافہ، موٹاپا، غذائی اجزاء کی کمی اور روزمرہ کے کاموں پر ممکنہ اثرات شامل ہیں، چینی کے زیادہ استعمال سے جگر بہت زیادہ مقدار میں چربی بنانے لگتا ہے جو اس کے اردگرد جمع ہو جاتی ہے اور آنیوالے وقتوں میں صحت کے سنگین مسائل کا سبب بھی بنتی ہے، چینی جسم میں بننے والے سرطان کے خلیوں کی پسندیدہ غذا قرار دی گئی ہے، چینی کا زیادہ استعمال جسمانی ورم اور موٹاپے کا باعث بنتا ہے اور یہ تینوں عناصر سرطان کا خطرہ بڑھاتے ہیں، اسی طرح ایک تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ میٹھے مشروبات کے استعمال سے بھی سرطان کا خطرہ بڑھتا ہے، چینی منہ میں پائے جانیوالے جراثیم کی غذا بن جاتی ہے جو چینی کو ہضم کر کے تیزاب خارج کرتے ہیں جو دانتوں کی سطح کو متاثر کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ میٹھا کھانے والے لوگ دانتوں کی کمزوری اور مسائل کا شکار رہتے ہیں، حکومتی بے حسی اور حکومت اور چینی مافیا کی ملی بھگت اور چینی کے ان نقصانات کے سبب چینی کا استعمال بالکل ترک کرنا چاہیئے، اور اگر میٹھا استعمال ہی کرنا ہے تو چینی کی بجائے گڑ استعمال کریں، گڑ بھی چینی کی طرح گنے سے ہی بنتا ہے لیکن اسے چینی کی طرح کیمیائی مادے ملا کر سفید نہیں کیا جاتا کہ جس سے اس کے فوائد نقصانات میں بدل جائیں، گڑ میں لحمیہ یعنی پروٹین، چکنائی،فولاد، قلوبہ یعنی پوٹاشیم، حیاتین یعنی وٹامنز ، معدنیات، کیلشیئم، جست یعنی زنک، فاسفر اور تانبا کی بھی کچھ مقدار موجود ہوتی ہے، گڑ نظام ہاضمہ کیلئے مفید ہوتا ہے ، اس کے کھانے سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور موسمی بیماریوں جیسے نزلہ زکام سے جلد صحت یابی میں مدد ملتی ہے، گڑ کھانے سے جسمانی توانائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے بیماری کے بعد ہونیوالی کمزوری کی روک تھام ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  مسلم ممالک کا مشترکہ اعلامیہ