وزیر اعظم شہباز شریف نے این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخواکے حصے پر کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے اگست میں کمیٹی کا پہلا اجلاس بلانے کا عندیہ دیا ہے ‘ اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے مطالبات پیش کرتے ہوئے جن مسائل کی جانب وزیر اعظم کی توجہ دلائی تھی ان کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے آج جو باتیں کی ہیں ہمیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگااورمل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے وزیر اعظم نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخواکے حصے کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائے گی ‘ وزیر اعظم نے کہا کہ 2010ء کے ایوارڈ میں پہلا آئٹم خیبر پختونخوا کے لئے دہشت گردی کے خلاف جو وسائل ہیں اس پرچاروں صوبوں نے ایک فیصد پر اتفاق کیا اور مختلف ادوار میں صرف اس مد میں خیبر پختونخوا کو 700ارب روپے دیئے گئے جبکہ دہشت گردی کے خاتمے تک فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواعلی امین گنڈا پور نے صوبے کے حقوق کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگانے سے گریز کیاجائے این ایف سی میں ضم اضلاع کا حصہ صوبوں کو منتقل کرنے کا فوری اعلان کیاجائے ہم کسی دوسرے صوبے کا حق نہیں مانگ رہے بلکہ ہمیںاپنا حق دیاجائے وفاقی حکومت اپنے ذمے خیبر پختونخوا کے تمام بقایا جات ادا کرے ‘ یہ ہمارا جائز حق ہے انہوں نے ضم اضلاع میں تنازعات کے پائیدار حل کے لئے جرگہ سسٹم بحال کیا جائے جہاں تک صوبے کے حقوق اور بقایاجات کا تعلق ہے اس حوالے سے جب ہم حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو صوبہ خیبر پختونخواکے ساتھ گزشتہ کئی سال سے وفاق کا رویہ قابل توجہ کے زمرے میں آتا ہے صوبے کے پن بجلی کے بقایا جات کی ادائیگی ایک طویل عرصے تک واپڈا اور وفاقی حکومت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار رہی ‘ اے جی این قاضی فارمولے پر اتفاق اور معاہدہ ہوجانے کے باوجود واپڈا صوبے کاحصہ دینے سے گریزاں رہا اور اسے طویل عرصے تک صرف 6 ارب روپے سالانہ پرساقط کرکے صوبے کی ترقی کی راہیں مسدود کی جاتی رہیں جب یہ معاملہ بہ امرمجبوری سپریم کورٹ میں لے جایا گیا اور وہاں سے صوبے کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد صدرمملکت کی جانب سے اسے ضمانت بھی فراہم کی گئی مگر اس کے باوجود مختلف حیلوں بہانوں سے واپڈا کی جانب سے یہ معاملہ وقتاً فوقتاً ذیلی عدالتوں میں چیلنج کرکے اسے طویل عرصے تک منقار زیر پر رکھنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا رہا یہ ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح ایم ایم اے اور اس کے بعد اے این پی حکومتوں کے ادوارمیں پارلیمانی جرگوں کے ذریعے 6 ارب کی رقم میں بتدریج اضافے پر وفاق راضی ہوسکا’ تاہم اس حوالے سے اب بھی اربوں کے بقایاجات وفاق کے ذمے ہیں اسی طرح این ایف سی ایوارڈ میں بھی صوبوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور آئین کے مطابق مقررہ مدت کے اندر اجلاس کے انعقاد میں بھی”روڑے”اٹکائے جاتے رہے دہشتگردی کی جنگ میں فرنٹ لائن صوبہ ہونے کے ناتے ہونے والے نقصانات اور متاثرین کی امداد کے حوالے سے صوبے کے حصے میں ایک فیصد اضافے پر تمام صوبوں کے اتفاق کے باوجود صوبہ اس رقم سے تاحال محروم ہے اسی طرح ضم اضلاع کے حوالے سے فنڈز کی فراہمی بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے جبکہ تمباکو سیس میں صوبے کاجائز حصہ بھی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اس تمام صورتحال کی وجہ سے صوبے کے جائز حقوق بلاوجہ معطل کرنے کی پالیسی نے صوبے کو آمدن کے جائز آئینی حق سے محروم کر کھا ہے اور صوبے میں ترقیاتی منصوبے تکمیل کی راہ دیکھ رہے ہیں جبکہ دیگر اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی صوبہ محرومیوںکاشکار ہے وزیر اعظم کے حصہ پراین ایف سی ایوارڈ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اعلان خوش آئند ضرور ہے تاہم کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ اجلاس آج سے دو تین ہفتے پہلے طلب کرکے صوبے کے جائزمطالبات پر ہمدردانہ غور کیاجاتاکیونکہ اگلے مالی سال کابجٹ اخباری اطلاعات کے مطابق 13جون یا اس کے آس پاس ہونے کا امکان ہے اگراین ایف سی کا اجلاس پہلے طلب کرکے صوبوں کے حصوں کا تعین کردیا جاتا تو صوبہ خیبر پختونخوااسی کے مطابق ضروری اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دینے میں آسانی محسوس کرتا بجٹ اجلاس کے بعد اگر صوبے کا حصہ بڑھا بھی دیا جائے تو وہ کس کام کا؟ بہرحال اس کے باوجود وزیر اعظم کے اعلان کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کہ کم ازکم انہوںنے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعظم کی توجہ دلانے پر این ایف سی ایوارڈ کے سلسلے میں مثبت سوچ اپناتے ہوئے اگست ہی میں سہی اجلاس بلاے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے امید ہے محولہ اجلاس میں نہ صرف صوبائی حکومت اپنامقدمہ بہتر انداز اور درست دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پیش کرکے جائز فنڈز کے حصول میں کامیاب ہو گی بلکہ وفاق بھی ہمدردانہ رویئے کاثبوت دیتے ہوئے صوبے کے وسائل میں اضافہ کرنے پرآمادہ ہوگی۔
