اعلیٰ تعلیم پر پڑتی ضربیں؟

اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اخراجات پرآئندہ مالی سال میں بڑاکٹ لگاتے ہوئے 20 ارب روپے کی کمی کردی ہے جس کے بعد سرکاری جامعات کے لئے آئندہ مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کابڑا چیلنج سامنے آگیا ہے صوبائی سطح پر زیادہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی کٹ کاسب سے بڑا نقصان خیبر پختونخوا کی جامعات کواٹھانا پڑے گا امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں تعلیمی ادارے جہاں اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم دی جاتی ہے ہائیر ایجوکیشن کے زیر نگرانی اپنا نظام جاری رکھے ہوئے ہیں ان اداروں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ ماہر اساتذہ کی نگرانی میں روایتی تعلیم کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں سے ہر سال ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرزکی ایک بڑی تعداد اسناد حاصل کرکے یا تو مزید تعلیم کے لئے ملک سے باہر مشہور زمانہ اداروں میں داخلے کے لئے کوشاں ہوجاتے ہیں یا پھر ملک کے اندر ہی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں سے وابستہ ہوکر نئی نسل کی تعلیمی پرداخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حصول کے دوران انہیں بھاری فیسیں ادا کرکے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور جتنی رقوم مختلف سمسٹرزکے ذریعے پرسکالرز ادا کرتے ہیں وہ بھی بعض حالات میں ان کی اسطاعت سے باہر ہوتی ہے جبکہ اس کمی کو پوراکرنے کے لئے متعلقہ جامعات کی مالی معاونت ہائی ایجوکیشن کمیشن کی وساطت سے حکومت کرتی ہے مگراب وفاق اٹھارہویں ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم صوبوں کے ذمے ہونے کے باعث ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی کرکے ان جامعات کواعلیٰ تعلیم کے لئے ہونے والی سرگرمیوںکے لئے وسائل دینے سے گریزاں ہے پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ایک ملک ہے جہاں اسلامی شعائر پرعمل درآمد کوبنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسلام نے تعلیم کے حصول پرجتنا زوردیا ہے بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں اس شعبے کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جواسلام کامدعا ہے بہرحال ہم صوبائی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کے لئے جامعات کو خصوصی امدادی فنڈز فراہم کرکے صوبے کے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں تعاون کرے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہمارا صوبہ دوسرے صوبوں سے کہیں پیچھے ہے جس کیوجہ سے یہ صوبہ ترقی میں بھی خاصا پیچھے ہے جس کا مدوارا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  عجیب پالیسی؟