پاک بھارت، فوجی ٹکرائو سے سفارت کاری کی جانب

برصغیر کی متحرب ایٹمی طاقتیں ہندوستان اور پاکستان گزشتہ ماہ 7تا10مئی ایک نہایت جدید ٹیکنالوجیکل ملٹری تصادم سے نکلنے کے بعد اب روایتی قسم کی اعلی سفارتکاری کے محاذ پر برسر کار پیکار نظر آرہی ہیں۔ چانکیہ سفارت کاری کے گرو ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرا مینم جے شنکر اور سابقہ تجربہ کار بھارتی سفارت کار اور ممبر پارلیمان کانگرس پارٹی ششی تھرور اپنے ملک کی پارلیمنٹ کے 33ممبران پر مشتمل ایک وفد کے قیادت کر رہے ہیں جو کہ سات سفارتی ٹیموں میں تقسیم ہے۔ بمقابلہ اس لشکر ہند، پاکستان کے وفد کی قیادت ایک خاندانی سیاست اور جدید سفارت کاری کا خون رکھنے والے نوجوان سیاست داں بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں- پاکستان کا نوممبر وفد حکمران جماعتی اتحاد کے ممبران پارلیمنٹ ڈاکٹر مصدق مسعود ملک، سینیٹر شیری رحمان ، حنا ربانی کھر ،انجینئر غلام دستگیر خان، سید فیصل علی سبزواری اور مسلم لیگ نواز کی سینیٹر بشری انجم، دو سابقہ تجربہ کار سفارت کار برائے خارجہ امور جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ دولتانہ پرمشتمل ہے۔ اس وفد میں حزب اختلاف کا کوئی ممبر شامل نہیں ہے۔ 10مئی کو اس جدید ٹیکنالوجیکل فوجی تصادم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے فائر بندی پر لانے کے بعد دونوں ملکوں کے سیاسی و سفارتی وفود فوری طور پر ترتیب دیے گئے ہیں۔ماہ رواں کے آغاز کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے وفود بین الاقوامی سفارتی محاذ پر اپنے اپنے ملکوں کے موقف کی حمایت اور فریق مخالف کے بیانیہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاک ۔انڈیا حالیہ کشیدگی میں کمی آتے ہی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے فوری طور پر 20تا30مئی ایک چار ملکی کی دورے پر روانہ ہوئے اور ان چار قریبی دوست ملکوں ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان جا کر ان کی حکومتوں کی بروقت سرگرم حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری جانب ہندوستان کے وزیر خارجہ جے شنکر کشیدگی میں کمی آتے ہی یورپ کے دورے پر روانہ ہوئے جہاں انہوں نے19تا 24مئی نیدرلینڈ، جرمنی اور ڈنمارک کے اعلی حکومتی حکام سے ملاقاتیں کیں۔اس متوازی سفارتی سرگرمی میں وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر پاکستان کے ایک اعلی سطحی وفد نے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو۔ زرداری کی قیادت میں3جون کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل اراکین ملکوں کے نمائندوں سے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقاتیں کیں۔ وفد نے امریکہ، چین ،فرانس کے علاوہ ڈنمارک، یونان، پانامہ، جاپان اور دیگر سلامتی کونسل کے ممبر ملکوں پر حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے مقف کی وضاحت کی۔ وفد کی گفتگو کے نکاتِ توجہ بھارت کی جانب سے بغیر کسی دہشت گردی کے ثبوت کے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنا اور اس کے جواب میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں پاکستان کی جانب سے اس کا فوجی جواب، ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائیلی علاقوں میں دھشت گردی، انڈس واٹر ٹریٹی کو غیر قانونی طور پر معطل کر کے پاکستان کے لیے دریائی پانی کے مسائل پیدا کرنے سے متعلق اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے معاملات پر تھا۔ پاکستان کی سفارتی سرگرمی کے متوازی سفارتی سرگرمی میں ہندوستان کے وفد نے انڈین کانگرس پارٹی کے ممبر اور سابقہ اعلی سفارت کا ر ششی تھرور کی سربراہی میں تین جون کو واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور ان پر ہندوستان کے موقف کی وضاحت کی ۔ پاکستان کا ایک سفارتی وفد وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سید طارق فاطمی کی قیادت میں ماسکو، روس کے دورے پر بھی ہے۔ ہندوستان کی جانب سے بھی ان کے پارلیمان کے ایک وفد کوبرطانیہ، لائبیریا ، ملائیشیا اور اسپین کے سفارتی دوروں کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ہندوستان کے لیے سپورٹ حاصل کر سکیں ۔پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ فوجی تصادم کے بعد سفارت کاری کی مہم کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستان کی جانب سے تقریبا ہر ملک پر یہ زور دیا گیا ہے کہ پاک ۔انڈیا تعلقات کے حوالے سے واضح لفظوں میں دہشت گردی کی اصطلاح کو استعمال کریں ہندوستان کی حکومت اور ان کے خارجہ دفتر کی جانب سے مسلسل پوری دنیا کو یہ بات باور کرانے کی حتی المقدور کوشش کی جا رہی ہے کہ6تا10مئی کے فوجی تصادم کی وجہ کراس بارڈر یا بین السرحدی دہشت گردی ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کی طرف سے تمام بین الاقوامی فورمز پر اس بات کی مسلسل تردید کی گئی ہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کے کراس بارڈر ٹیررازم یا دہشت گردی میں ملوث ہے اور ہندوستان کے الزامات کے جواب میں پاکستان کی جانب سے باقاعدہ ثبوت فراہم کیے گئے ہیں کہ ہندوستان کی ایجنسیاں پاکستان کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے نیٹ ورک چلا رہی ہیں۔ سرکاری سطح پر جو بیانات دیے ہیں اور اگر ان میں دہشت گردی کی کوئی مذمت کی بھی گئی ہو، تو ہندوستان کی حکومت نے ان بیانات کو بڑھا چڑھا کر اور ان کو اپنے اصل متن سے ہٹا کر اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے جیسا کہ فرانس ،برطانیہ اور نیدرلینڈ کی جانب سے ان کے سرکاری بیانات میں دہشت گردی کے مذمت اور ہندوستان سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن بیک وقت یورپین یونین جیسی بین الاقوامی تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی تنظیمی حیثیت میں اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردی پر کوئی رد عمل دینے کے بجائے ہندوستان اور پاکستان پر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ مسلم دنیا کے زیادہ تر ممالک کا حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر رویہ بھی بھارت کی حمایت میں نہ تھا۔ مسلم دنیا میں جس طرح ترکیہ نے بھارت سے معاشی تعلقات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کو سپورٹ کیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ہندوستان کی حکومت نے انتہائی شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزام بھی لگایا کہ اس نے 300سے 400ترکیہ کے بنے ہوئے ڈرون پاکستان کو فوری طور پر دیے ہیں جن کو پاکستان نے ہندوستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ۔دوسری جانب علاوہ انڈونیشیا کے کسی بھی مسلمان ملک نے یا کسی بھی مسلم فورم مثلا او آئی سی عرب لیگ یا گلف کوآپریشن کونسل کی جانب سے22اپریل کے واقعے کو پاکستان سے نہیں جوڑا گیا نہ ہی اس کی دہشت گردی کے حوالے سے مذمت کی گئی ہے بلکہ دونوں ملکوں پر کشیدگی کم کرنے اور معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے اس تمام صورتحال میں نہایت عجیب لیکن پاکستان کی حمایت میں جانے والی بات یہ ہے کہ وہ یوروپین ممالک جن کا اوپر ذکر ہندوستان میں حمایت کے حوالے سے کیا گیا ہے انہوں نے بھی دہشت گردی کی مذمت تو کی ہے لیکن اس کا ناطہ پاکستان سے نہیں جوڑا ہے دیگر لفظوں میں ہندوستان کے ایکشن کو جو اس نے کراس بارڈر دہشتگردی اور دہشت گردوں کی یہاں پناگاہوں کو تباہ کرنے کے حوالے سے پاکستان میں کیا اس کو سفارتی طور پر کئی سے سپورٹ نہیں ملی ہے اور سفارتی زبان میں ان تمام ممالک نے پاکستان کے موقف کو سمجھا ہے اگرچہ حمایت نہیں کی ہے۔ یہاں اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہندوستان آخر کیوں پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگانا چاہتا ہے؟ اگر اس بات کو بھارت کی ایک نسبتا نئی فوجی ڈاکٹر ائن یا اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو وضاحت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ ہندوستان کسی بھی صورت نیوکلیائی تصادم تک جانے کا خواہاں نہیں ہے نہ ہی وہ کوئی بڑی جنگ چاہتا ہے بلکہ جہاں ہندوستان کی ایٹمی یا نیوکلیائی تحفظ کی حدیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے وہ نظریاتی حصہ شروع ہوتا ہے جس کو ہندوستان دہشت گردی کے جواب میں محدود جنگ یا سرجیکل سٹیکس کے لیے استعمال کرے گا۔یعنی جس طرح 2016 کے بعد ہندوستانی دعوے کے مطابق پاکستانی کشمیر میں اور2019کے واقعہ کے بعد ایبٹ آباد میں پہلے سے ہدف شدہ مقامات کو نشانہ بنایا گیا اس ڈکٹرائن کے تحت آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پوری دنیا کو پاکستان کے حوالے سے باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے لیکن تاحال ہندوستان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔6 تا 10مئی کے فوجی تصادم کو دنیا دونوں ملکوں کے مابین تاریخی کشمکش اور مذہبی منافرت کے تناظر میں زیادہ دیکھتی ہے اگرچہ پاکستان کی شہرت دہشت گردی کے حوالے سے بہت زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس تصادم کے بعد بھی ہندوستان اپنی ڈاکٹرین کی بقا کے لیے پاکستان کو سفارتی طور پر شکست دینے میں ناکام رہا ہے ۔یہ ایک بڑی کامیابی ہے اسی طرح جیسے اس فوجی تصادم کے بعد پاکستان کی فوجی کامیابی کو مان لیا گیا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مقتدر اور منتخب ادارے مل جل کر کوئی بہتر حکمت عملی بنائیں تاکہ ہندوستان کی جارحانہ سفارتی سفارت کاری کو لگام دی جا سکے۔

مزید پڑھیں:  رسومات کے جھمیلے