تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ملک میں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پرتعلیم کی ترقی کے دعوئوں کو عمل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے کا عین مصداق نظر آئے گا اٹھارہویں ترمیم کا حوالہ دے کر وفاق مسلسل صوبوں کو اعلیٰ تعلیم کے مد میں وسائل کی فراہمی میں لیت و لعل کا مظاہرہ کرتا آیا ہے اس مالی سال اس کا بوجھ پوری طرح صوبوں کو منتقل کئے جانے کا امکان ہے جس کے بعد صورتحال کا تصور ہی پریشان کن ہے خیبرپختونخوا میں صورتحال بطور خاص پریشان کن اورگھمبیر ہے کہنے کوتو خیبر پختونخوا میں تقریباً ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام تو عمل میں لایا گیا ہے لیکن اس ادھورے عمل کی تکمیل تو درکنار حالات یہی رہے تو یونیورسٹیز کا انضمام اور درجہ کم کرکے کیمپسز میں تبدیل کرنے کی نوبت آسکتی ہے جامعات کے اساتذہ کی تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی مشکل بلکہ کہیں کہیں تقریباً ناممکن ہوگئی ہے امسال اعلیٰ تعلیم اور شعبہ تعلیم کے لئے بجٹ میں کتنی رقم رکھی جاتی ہے اس کا سامنے آنا باقی ہے لیکن اندازہ ہے کہ صورتحال اچھی نہیں ہو گی اس مجموعی منظر نامے سے قظع نظر حکومت سکولوں میں بچوںکے داخلے کی شرح میں اضافے کی سعی میں ہے گو کہ یہ ہرسال کی سعی لاحاصل ہوتی ہے لیکن حکومت یہ رسم نبھانے پرمجبور ہے اور بیورو کریسی کو نمائشی اقدامات کا شوق ہے جسے پوری کرنا ضروری ہے اسی روایت کے اعادے کی خاطر صوبائی حکومت نے سکول سے باہر بچوں کا مسئلہ حل کرنے کے لئے 15روز میں نئی حکمت عملی تیار کرنے کا ہدف محکمہ ابتدائی تعلیم کو حوالہ کردیاہے جس کی روشنی میں مزید اقدامات تجویز کئے جائیں گے امر واقع یہ ہے کہ سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں ہر سال خطرناک شرح کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس پر مقامی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ بیرونی امدادی اداروں کی جانب سے بھی تشویش ظاہر کی جارہی ہے اس بارے میں اب مستقل حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس بارے میںیونیسف، محکمہ ابتدائی تعلیم اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو نیا ہدف حوالہ کیا ہے جس میں اگلے 15 دنوں کے اندر سکولوں سے باہر بچوں کے مسئلے کے حل کے لئے جامع منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔صرف صوبائی دارالحکومت پشاور کو ہی اگر نظیر بنا کر جائزہ لیا جائے تو تعلیمی مسائل مشکلات اور حکومتی اقدامات کی ناکامی کا بخوبی اندازہ ہوگا اضلاع اور خصوصاً ضم اضلاع میں سکولوں کی حالت زار محکمہ تعلیم کے انتظامی افسران کی من مانیاں اور اساتذہ کی ناقص کارکردگی اور تدریسی ذمہ داریوں میں کوتاہی وہ حقائق اوربراہین ہیں جس کے باعث سکولوں سے بچوں کا اخراج اور تعلیمی نظام کی پستی واضح ہوئی ہوتی ہے بدقسمتی سے صوبے میں تعلیم کے شعبے اور نظام امتحانات کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے اور اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہی نہیں جو بچے سکولوں میں داخل ہی نہیں ہوتے یا پھر جوتعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں ان کا تذکرہ ایک طرف بچوں کی جوبڑی تعداد سکولوں میں آتی ہے ان کے لئے بھی حکومت اور محکمہ تعلیم کچھ نہیں کرتی حالت یہ ہے کہ سکولوں کی تعمیرات ناقص اور نامکمل ہیںگرلز سکول تک چاردیواری سے محروم ہیں پینے کا پانی اور واش رومز کی سہولت نہیں ہوتی خیبر پختونخوا میں تقریباً پانچ ہزار سے زائد سکول ایک واٹ کی بجلی کے بغیر چل رہے ہیں دو ہزار سے زائد سکولوں میں پینے کا صاف پانی نایاب ہے صرف صوبائی دارالحکومت پشاور میں اکیس سکول بجلی سے محروم بتائے جاتے ہیںپندرہ میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں سترہ میں واش رومز کافی سہولت موجودنہیںایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب اشرافیہ کے بچے جس ماحول میں سکول جاتے ہیں اور نجی سکولوں میں جوسہولیاتمیسر ہیں اس سے معاشرتی اور تعلیمی تقسیم دونوں گہری ہوجاتی ہیں نظام امتحانات اور حصول نمبرات تک اس کے اثرات ہیں وہ قابل تذکرہ ہی نہیں صرف پشاور میںنصف ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہے صوبے میں نصابی کتب کی فراہمی کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے اب ناکافی وسائل کے باعث ضرورت سے نصف کم کتابیں شائع ہوتی ہیںاور پرانی کتابیں سال بعد اس قابل نہیں ہوتیں کہ اس سے دوبارہ استفادہ کیا جائے ۔ایسے میں بہتری کی توقع ہی عبث ہے حکام کو یاد ہونا چاہئے کہ طلبہ کی بہتر تعلیم و تدریس کا انتظام ان کی آئینی ذمہ داری ہے اور اس سے انحراف آئین کی خلاف ورزی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ صوبائی حکومت ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر عندیہ کے مطابق جامع پروگرام وضع کرے اور صوبے میں تعلیم کا حق سلب اور تلف ہونے کی نوبت نہ آئے گی۔

مزید پڑھیں:  قتل مقاتلے کے واقعات میں اضافہ