پاک افغان جنگ جو نہ ہو سکی

آخر کار پاکستان اور افغانستان جنگ کی دہلیز سے لوٹ ہی آئے۔بھارت کے ساتھ حالیہ کشمکش کے دوران غیر متوقع طور پر دونوں ملک دور ہوتے ہوتے اچانک قریب آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کا ایک اہم مرحلہ یہ تھا جب پاکستان نے کابل میں اپنے سفارت خانے کا سٹیٹس بڑھا کر قونصلر سطح تک بلند کیا اور جواب میں افغان حکومت نے بھی اسلام آباد میں اپنے نمائندے کو ناظم الامور کے عہدے پر ترقی دے کر سفارتی سٹیٹس بلند کر دیا ۔افغان وزارت خارجہ نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ۔افغانستان میں طالبان کی حکومت اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ نہیں اور اسی لئے دنیا بھی انہیں فکری طور پر تو تسلیم نہیں کررہی مگر حکومت کے ساتھ تجارت سمیت تمام تعلقات قائم رکھ کر عملی طور پر حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں ۔چین ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تسلیم کر چکا ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ حکام کے دوروں کا سلسلہ جا ری ہے اور چین افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کا ری کر رہا ہے ۔امریکہ جو طالبان سے پُر خاش رکھتا ہے اورکابل میں ان کی حکومت کے اقدامات پر اکثر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے باوجودافغانستان کے ساتھ رابطہ بحال رکھے ہوئے اور اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں اس وقت ہوا جب امریکہ کے افغان نژاد سفارت کار زلمے خلیل زاد ایک امریکی وفد کے ہمراہ کابل پہنچے فریقین کے درمیان مذاکرات ہوئے اور وہ امریکہ کے قیدی چھڑا کر اپنے ساتھ لے گئے ۔یوں یہ امریکہ اور طالبان حکومت کا اعلانیہ براہ راست رابطہ تھا جس نے دنیا کو حیران کر دیا ۔اسی طرح بھارت جس نے طالبان کے افغانستان پر کنٹرول پر جم کر ماتم کیا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بھارت کی کوئی ریاست اس کے جغرافیے سے الگ ہوگئی آخر کار مجبور طالبان حکومت سے رسم وراہ استوار کرنے پر مجبور ہوا ۔طالبان کے پچھلے دور میں ایران کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش جا ری رہی مگر اس بار طالبان نے ایران کے ساتھ معاملات میں بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ۔اس منظر نامے میں پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بگڑتے ہوئے معاملات ایک لمحہ ٔ فکریہ تھے۔پاکستان اور افغانستان محض پڑوسی ہی نہیں بلکہ دونوں کے درمیان ثقافتی تعلقات بھی گہرے ہیں بلکہ موجودہ افغانستان پاکستان کے تزویراتی گہرائی کی تلاش کے خوش گوار انجام اور خوبصورت خواب کی تعبیر کا دوسرا نام ہے ۔یہ وہ خواب ہے جو پاکستان کے دفاعی ماہرین نے مدتوں پہلے دیکھا تھا اور ان کا خواب تھا کہ کابل میں ایک پاکستان دوست حکومت ہو جو بھارت کے ساتھ کسی کشمکش میں اگر پاکستان کا ساتھ نہیں دیتی تو کم ازکم بھار ت کے ساتھ بھی جا کھڑی نہ ہو ۔ طالبان اسی خواب کی تعبیرکانام تھا اس خواب کی تعبیر میں پاکستان نے ڈبل گیم کا الزام بھی سہا اور مغربی دنیا میں کئی بدنامیاں بھی سمیٹیں ۔اب جبکہ یہ خواب تعبیر پا چکا تھا تو کابل اور اسلام آباد میں دوریاں ناقابل فہم تھیں ۔یوں لگ رہا تھا کہ کوئی طاقت دونوں کو دو مختلف سمتوں میں دھکیل رہی ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ایک سکرپٹ کا حصہ تھی جس کا مقصد پاکستان کے روایتی تصور ِ دشمن کو تبدیل کرانا تھا ۔قمر جاوید باجوہ نے کچھ عرصہ قبل اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کو اب بیرونی خطرے کی بجائے اندرونی خطرہ درپیش ہے ۔اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا تھا ۔یعنی پاکستان میں اب اندرونی خطرات ہیں ۔اس کی نئی نسل سسٹم سے بیزار ہو کر بغاوت کی راہوں پر چل پڑ سکتی ہے ۔ پاکستان کو یہ سبق پڑھایا جا رہا تھا کہ اب بھارت پاکستان کے لئے خطرہ نہیں رہا ۔اب پاکستان کو افغانستان کی جانب سے خطرہ درپیش ہے اور افغانستان پاکستان کی سماجی حرکیات کو بدلنے کی پوزیشن بھی ہے۔افغانستان کے ساتھ جو ثقافتی اور سماجی تعلق کبھی پاکستان کے لئے ایک اثاثہ ہو ا کر تا تھا اسے اب ایک بوجھ بنایا جارہا تھا ۔سیدھے سبھاو ایک انجانا خوف اُبھارا جا رہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ سماجی اور معاشی رشتوں کی مضبوطی پاکستان کی سماجیات اور توازن کو بھی خراب کر سکتی ہے۔بیرونی طاقتوں کا دیرینہ ایجنڈا یہ تھا کہ پاکستان کی دشمنی کا بورڈ واہگہ سے اُٹھا کر طورخم پر نصب کیا جائے۔اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تیزی سے تنزل آرہا تھا اور طالبان بھارت کے قریب ہوتے جا رہے تھے ۔طالبان افغانستان میں پاکستان کا آخری اثاثہ تھا اور اس کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد افغانستان میں پاکستان کا نام لیوا کوئی اور نہیں رہنا تھا ۔افغان مہاجرین جو دونوں کے درمیان پُل کا کر دار ادا کر سکتے تھے کریک ڈائون کی زد میں تھا اور انہیں زبردستی ڈیورنڈ لائن سے پرے دھکیل کر رہی سہی سپیس ختم کی جارہی تھی ۔اس معاملے میں امید کی واحد کرن چین اور طالبان کے تعلقات تھے ۔چین نے دونوں ملکوں میں بھاری سرمایہ کا ری کر رکھی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی ساری زد چین کی سرمایہ کاری پر ہی پڑنا تھی ۔یہ بھی حیرت انگیز بات تھی کہ پاکستان کی حکومت طالبان پر ٹی ٹی پی کی حمایت کا الزام عائد کر رہی تھی ۔ٹی ٹی پی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور سی پیک کو نشانہ بنا رہی تھی جبکہ چین اور طالبان میں تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے تھے اور چین طالبان سے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کو تباہ کرنے پر گلہ گزار بھی نظر نہیں آتا تھا ۔اس ماحول میںنریندر مودی کو حماقت کی سوجھی اور وہ پاکستان پر حملہ آور ہوئے۔جس کے بعد دشمنی کا بورڈ از خود طورخم سے واپس واہگہ پر نصب ہوگیا ۔یوں پاکستان اور افغانستان ایک ناگزیر اور مسلط کردہ جنگ کی دہلیز سے لوٹ کر آگئے۔اس میں جہاں چین کا پوشیدہ کردار ہے وہیں امریکہ کا طالبان کے ساتھ براہ راست رابطہ کرکے اپنے قیدیوں کو چھڑا کر لے جانا بھی پاکستان کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا وگرنہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف اور افغانستان کے ٹک ٹاکر خودساختہ جنرل مبین دونوں تو پہلی باضابطہ پاک افغان جنگ کی تاریخ رقم کروانے کا تہیہ کئے بیٹھے تھے ۔

مزید پڑھیں:  عجیب پالیسی؟