بجٹ کبھی بھی عوام کے لئے خوشخبری لے کر نہیں آتا بلکہ مشکلات ہی مشکلات لے کر آتا ہے اب تو متوازن بجٹ کی توقع رکھنا اور بجٹ میں عوام کومراعات و سہولیات اور ترقیاتی کاموں کیلئے بجٹ مختص کرنے کا عمل بھی تقریباً معدوم صورت ہی نظر آتا ہے ایسے میں بجٹ عوام کیلئے نہیں بلکہ حکومت کے اخراجات پوری کرنے ہی کا ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سال کے متوقع بجٹ میں گزشتہ چند سالوں کے معاشی چیلنجز کے باعث قومی ترقیاتی بجٹ میں مسلسل کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ترقیاتی فنڈز میں وسعت وقت کی اہم ضرورت تو ہے اور عوام بھی صحت، تعلیم ،پانی،بجلی اور انفراز سٹرکچر میں بہتری کی توقع منتخب حکومتوں سے رکھتے ہیںلیکن اس وقت وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے اور موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے نیز پاکستان جس طرح کے معاشی مسائل کا شکار ہے اور قرضوں کا بوجھ ہے بدقسمتی سے اس میں کمی آنے کی بجائے یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کے باعث حکومت کے پاس عوام کی فلاح کے فیصلے کرنے کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ حکومت کے پاس عوام کو مزید نچوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اگر موجود بھی ہے تو بھی حکومت اسے اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سال کی بجٹ کی طرح اس سال بھی بجٹ میں عوام پر بوجھ میں اضافہ ہونے جا رہا ہے اور مہنگائی و سخت معاشی حالات کا ملک اور عوام دونوں کو سامنا ہوگاوفاقی حکومت نیا ٹیکس اور ٹرانزیکشن نظام متعارف کرانا چاہتی ہے،جو نقد ادائیگی کی بجائے دستاویزی سسٹم پر مبنی ہوگا۔ جس کے تحت پیٹرولیم ڈیلرز،مینو فیکچررز اور درآمد کنندگان کیش سیلز کی صورت میں اضافی رقم وصول کرنے کے مجاز ہوں گے۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی تجویز ہے۔اس کے باوجود آئی ایم ایف کو ٹیکسوں میں کمی پر اعتراض ہے ۔ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس وصولی میں ایک ٹریلین روپے کی کمی پر بھی تشویش ظاہر کی جارہی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فائلر اور نان فائلر اب بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں،جن کی مالیت 1.3 ٹریلین روپے ہے،حکومت جو ترقیاتی بجٹ بناتی ہے اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوپا تا۔کیش لیس معیشت کے نفاذ میں مشکلات کے علاوہ تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقوں کو ریلیف دینے میں بھی مشکلات حائل ہیں۔تنخواہ داروں کو ریلیف دینے کیلئے بچت اسکیموں اوربینکوں میں ڈیپازٹ پر شرح ٹیکس میں 2فیصد اضافے پر غور ہورہا ہے ،جس کا اطلاق فائلر اور نان فائلر دونوں پر ہوگا۔ایسے میں بینکوں اور بچت سکیموں پر انحصار کرنیوالوں کی زندگی اس سے اور زیادہ مشکل ہوجائیگی اور کمرشل بینکوں کو بھی اس سے نقصان پہنچے گا۔ اگلے بجٹ کی آمد آمد ہے اور سب کی نظریں ان اضافی ٹیکسوں کے اقدامات پر لگی ہوئی ہیں جو حکومت نے آئی ایم ایف کے ذریعہ جی ڈی پی ایک اعشاریہ چھ فیصدکے بنیادی سرپلس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تجویزدی ہے۔ کیا حکومت ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، زراعت وغیرہ کو موثر طریقے سے نیٹ میں لا کر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی قابل اعتماد کوشش کرے گی؟ کیا یہ بات آگے بڑھے گی اور ان لاکھوں ٹیکس چوروں سے وصولی ہوگی جن کا ایف بی آر دعویٰ کرتا ہے کہ گزشتہ چار پانچ سالوں میں انہیں نوٹس جاری کیے گئے ہیں؟ یا کیا یہ تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر کا مزید گلا گھونٹ دے گا، جو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دیا ہوا ہے تنخواہ دار افراد کو کوئی خاص ‘ریلیف’ فراہم کرنے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں، کیونکہ بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات اور دیگر موجودہ اخراجات میں اس کی گنجئاش بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت کہ تنخواہ دار افراد نے گزشتہ سال کے مقابلے اس سال کے پہلے 10 مہینوں میں 52 فیصد زیادہ ٹیکس 437 بلین روپے کی ادائیگی کی ہے اور یہ کہ مینوفیکچرنگ انڈسٹری، جو جی ڈی پی کا 18 فیصد بنتی ہے، کل ٹیکس ریونیو میں تقریبا 60 فیصد حصہ ڈال رہی ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ٹیکس ڈھانچہ کتنا منصفانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ ریاست ہر قابل ٹیکس آمدنی پر متناسب ٹیکس لگائے بغیر مزید زندہ نہیں رہ سکتی چاہے اس کا ذریعہ اور سیاسی اثر کچھ بھی ہو۔ افراد پر بڑے پیمانے پر ٹیکس کا بوجھ ٹیلنٹ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ سرمایہ کاری، برآمدات اور نمو پر ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ بجٹ حکومت کو نظام کو ٹھیک کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آخری موقع نہ ہو، لیکن اگر ابھی فائدہ نہ اٹھایا جائے تو معاملات جلد ہی قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے مالیاتی اقدامات سے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔مگر پائیدار معاشی استحکام کے لئے اسے ابھی بہت جدو جہد کی ضرورت ہے۔
