تعلیمی نظام اب محض خانہ پری ہے

دنیا میں تحصیل علم کے جو جو نظام چل رہے ہیں ان میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں نصابات اور تحصیل علم کے ذرائع میں جدید علوم کی معاونت و شمولیت کی وجہ سے ہورہی ہیں ۔ پاکستان میں نظام تعلیم وہی کالونیل ضرورت کے مطابق ابھی تک چل رہا ہے جس میں لارڈ میکالے کے کلرک و ماتحت و معاون بناؤ مقصد پیش نظر رہتا ہے ۔ پاکستان کا نظا م تعلیم کسی بھی بچے کو ذہنی اور علمی تربیت دینے سے قاصر ہے یہ نظام اب تک رٹے پر چل رہا ہے اور اس کا بنیادی مقصد انگریزی زبان کی شدبد حاصل کرنا ہی ہے ۔ پاکستان میں جو سائنس پڑھائی جارہی ہے وہ دہائیوں پہلے سے دنیا میں ناپائید ہے ۔ یہاں جو کمپیوٹر سے متعلقہ کورسسز ہیں وہ اب کسی بھی کمپیوٹر میں استعمال نہیں ہوتیں ۔ یہاں آرٹس سے لیکر سائنس تک اور کامرس سے لیکر منیجمنٹ تک جو کچھ بھی ہے وہ اب دنیا میں صرف کتابوں کی حد تک رہ گیا ہے اور دنیا ان قدیمی روایتی سلسلوں کو ترک کرکے جدید علوم اور اے آئی سے کام لے رہی ہے ۔ پاکستان میں کسی زمانے میں میڈیکل کی تعلیم ایک معیار کے مطابق تھی مگر حالیہ دہائیوں میں میڈیکل کی تعلیم بھی دیگر علوم کی طرح نوٹس اور رٹے تک محدود ہوگئی ہے ۔ اس ملک میں انجینئرنگ کی تعلیم اس حد تک ناقص ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں فارغ و التحصیل انجینئر ز کوکہیں بھی نوکری دستیاب نہیں ہے ۔ اس وقت ملک میں تین سو کے قریب سرکاری و غیر سرکاری جامعات اور ہزاروں کی تعداد میں کالجز ہیں جہاں انڈر گریجویٹ پروگرام چل رہے ہیں ۔ مگر ان کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ موجودہ وقت میں پاکستان میں جو سمسٹر نظام چل رہا ہے اس میں طالب کچھ نہیں سیکھتا اور طالب علم کو ایک ٹیچر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو پڑھانے پر توجہ نہیں دیتا اور طالب علم محنت کرنے کی جگہ اے آئی کی مدد سے اپنے اسائمنٹ اور دیگر ٹاسک چند منٹوں میں کرکے سیکھنے کے عمل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ سمسٹر امتحان سے ایک یا دو روز پہلے طالب علم اے آئی کی مدد سے پرچوں کے ممکنہ سوالات جو کہ سمسٹر نظام میں پہلے سے معلوم ہوتے ہیں حل کرکے تیار کرتے ہیں اورپرچے کے دن شیٹ پر لکھ لیتے ہیں یوں امتحانات اور سمسٹر نظام میں طالب علم کی صلاحیتوں اور استعداد کو جانچنے اور ماپنے کا جو طریقہ کار تھا وہ تقریبا ً ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ حکومت کے ایک بہت عجیب فیصلے نے پاکستان میں تعلیم کے معیار کو اور گرا دیا ہے وہ فیصلہ یہ تھا کہ پاکستان بھر میں کالجوں میں چار سالہ بی ایس پروگراموں کا شروع کرنا اب کالجوں میں لاکھوں کی تعدا دمیں طلبا بی ایس چار سالہ پروگرام میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ کالجوں کو انٹر اور دو سالہ پروگراموں کے لیے بنایا گیا تھا اصولی طور جب کالجوں میں بی اے بی ایس سی کا خاتمہ کردیا گیا تھا تو کالجوں میں اس کی جگہ دوسالہ ایسویسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کیا جاتا جس میں طلبا بنیادی مضامین پڑھ کر یونیورسٹیوں میں آتے اور یونیورسٹیوں سے باقی دو برس کی تعلیم حاصل کرتے مگر ایسا ہونہیں رہا اور کالجوں کے لیے جو امتحانوں کا نظام واضح کیا گیا وہ اتنا ناقص ہے کہ اس میں بچوں کی استعداد اور قابلیت چیک کرنے کی سکت ہی نہیں ہے ۔ تعلیم کے حوالے سے سارے فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں سیاسی منظور نظر افراد حکومت میں موجود وزیر وں مشیروں اور بیوروکریسی کو ہوائی باتوں میں پھنسا کر ان سے فیصلے کروا لیتے ہیں جس کا نتیجہ جو چار برسوں میں نکلتا ہے ایسا ہوتا ہے کہ اس سے معیار تعلیم کا خون ہوجاتا ہے ۔ حیرت اس امر پر ہے کہ کیسے پاکستان کا حکمران اور بااختیار طبقہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ دو دہائیوں سے تھیورٹیکل فریم ورک ختم کیا جارہاہے اور تعلیم کو عملی تربیت کی شکل میں ڈھالا جارہا ہے اور لوگوں کو تعلیم کے ذریعہ ہنر سکھایا جارہا ہے اور تحقیق کی مد میں ان کو عملی مواقع فراہم کیے جارہے ہیں مگر پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جس نے اس نہج پر کام کیا ہو۔ خیبر پختونخوا میں ایک ادارہ پاک آسٹریا فاخہ شولے کے نام سے ہری پور میں بنایا گیا ہے جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں مگر وہ ادارہ بھی عملی تعلیم دینے کی جگہ روایتی تعلیم دینے کی راہ پر چل نکلا ہے ۔ وہاں پڑھانے والے افراد بھی طالب علموں کو نوٹس اور لیکچرز کے ذریعہ ہی تعلیم دے رہے ہیں ۔ دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے اس حساب سے اس کے نظام بھی بدل رہے ہیں پاکستان دنیا سے ترقی میں اس لیے پیچھے ہے کہ یہاں کا نظام تعلیم اس رفتار کا ساتھ نہیں دے رہا جو باقی دنیا میں رائج ہے ۔ چین ، جاپان ، جنوبی کوریا ،ویت نام اور دیگر ممالک میں جو ترقی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اس کے پیچھے ان کا نظام تعلیم ہے ۔ ان ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے تعلیمی نظاموں کو بہتر کیا اس سلسلے میں ان ممالک نے امریکہ اور یورپ کے نظاموں سے بہت مدد لی ہے۔ ہم نے بجائے یورپ اور امریکہ کے نظاموں کے مطالعہ اور ا ن کو حقیقی معنوں میں یہاں رائج کرنے کے یہ کام کیا کہ ان نظاموں کے نصابوں کونقل کرکے یہاں کورسوں میں شامل میں کیا مگر یہ کسی نے نہیں سوچا کہ ان کورسوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ کہاں سے آئیں گے اور جو لوگ ان کورسوں کو پڑھائیں گے ان کی تربیت کون کرے گا ۔ وہ سارے نصابات صرف کتابی نہیں ہیں بلکہ ان کو عملی نقطۂ نظر سے سکھانا ہوتا ہے اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔ پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں نوٹس ، گائیڈز اور حل شدہ پرچوں کی ہزاروں دکانیں آپ کو ملیں گی یہ اگر کسی ترقی یافتہ دنیا کے ملک میں ہوتا تو یہ سارے دکان دار جیلوں میں ہوتے مگر یہاں یہ بہت بڑے کاروبار کی شکل میں موجود ہے ۔ہمارے ہاں امتحانی نظام بنایا ہی نہیں گیا ۔ اس برس تو کمال ہی ہوگیا ۔کمشنر اور اس کا عملہ اپنا کام چھوڑ کر میٹرک اور ایف اے ایف ایس سی کے امتحانات لینے لگا ۔ ایسا شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہوگا کہ شہر کا انتظام و انصرام سنبھالنے والے امتحان لینے پر مامور کردئیے گئے اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ کام ان کا تھا ہی نہیں اور جن کا یہ کام ہے وہ اس کام میں خیانت کرتے رہے ہیں ۔ امتحانوں پر پہرا داری کرنے سے کہیں زیادہ ضروری کام امتحانوں کا طریقہ کار اور نظام بنانا ہے جو اس ملک میں کوئی نہیں بنا رہا ۔ پوری دنیا اب امتحان لینے کے لیے بلیک بورڈ جیسے سافٹ وئیر کا استعمال کررہی ہے جس میں نہ کوئی نقل کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس میں مداخلت کرسکتا ہے اور اس پر اتنا خرچہ بھی نہیں ہے اب ہر سکول اور کالج میں کمپیوٹر لیب موجود ہیں ۔مگر ایسا کرنے سے بہت سارے لوگوں کی دکانیں بند ہوجائیں گی ۔ اس وقت پاکستان کے نظام تعلیم سے وابستہ اسی فیصد اساتذہ جدید ذرائع تعلیم سے واقف ہی نہیں ہیں اور تقریباً پچانوے فیصد ان ذرائع کے استعمال پر قدرت ہی نہیں رکھتے ۔ اس لیے موجودہ دور میں یہ نظام اب صرف خانہ پری کے طورپر رہ گیا ہے ۔ یونیورسٹیوں کے تمام طالب علم اب اے آئی کا استعمال کررہے ہیںجو کہ اگر حقیقی معنوں میں سیکھ کر کیا جائے تو ایک بہت ہی مثبت عمل ہے مگر ہمارے طالب علم اس کا استعمال نقل اور ناجائز ذرائع کے لیے کررہے ہیں ۔حکومت اگر غیر ضروری کاموں اور سرگرمیوں میں جو اربوں روپے ضائع کرتی ہے اس کو صرف ایک برس کے لیے اساتذہ کی تربیت اورجدید ٹیکنالوجی کے حصول میں لگائے تو اس سے جو اس نظام میں تبدیلی آئے گی وہ ناقابل یقین ہوگی اور مستقبل میں سیاسی بھرتیاں کرنے کی جگہ تعلیم کے شعبہ میں جدید علوم میں تربیت یافتہ اساتذہ لیے جائیں اور ہر برس ان کی جدید علوم میں تربیت کا انتظام کیا جائے تو ہمارے بچے بھی اس قابل ہوسکیں گے کہ وہ دنیا میں روزگار حاصل کرسکیں اور ملکی معاملات اور ضروریات کو پورا کرسکیں ورنہ یہ جو ہم لاکھوں کی تعداد میں ڈگری ہولڈرز پیدا کررہے ہیں یہ نا تو کوئی عملی کام کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی علمی کام کرنا ان کے بس میں ہے ۔ تعلیم کے حوالے سے سیاسی نہیں بلکہ دنیا کی طرح پروفیشنل فیصلے کیے جائیں اور اس شعبہ میں لوگوں کو روزگار دینے کی جگہ اس شعبہ میں ماہرین کو بھرتی کیا جائے اور پھر دنیا کی طرح ان کو ان کی قابلیت کے مطابق معاوضہ بھی دیا جائے تو عملی ترقی ممکن ہوسکے گی ۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا میں ترقی کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے موثر تعلیم جن کے پاس موثر تعلیم و تحقیق کا نظام ہوگا وہ آگے بڑھیں گے اور جن کے پاس یہ نظام نہیں ہوگا وہ خسارے میں رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے ڈیمز کی تفریحی مقامات میں تبدیلی