عید قربان کے موقع پر قربانی کے موضوع کو پوری طرح اجاگر کیا گیا اس کا فلسفہ سمجھایا گیا علماء کرام نے ہر پہلو سے اس کا بیان کیا میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا قربانی کی اسلام میں اہمیت کوئی مبہم موضوع نہیں پھر بھی کچھ عناصر اس کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ایسے میں اس کی مخالفت کرنے والے معدود چند افراد کو جواب بھی دیا گیا ہر مسلمان کی دلی خواہش اس عظیم عبادت کی ادائیگی کی ہوتی ہے یوں دل کھول کر قربانی کی گئی یہاں تک کہ استطاعت کی شرط پر پوری نہ اترنے والے لوگ بھی جذبہ قربانی سے سرشار گنجائش نکال کر بعض نے تو قرض بھی لیکر قربانی کی سب کچھ ٹھیک لگا اور خوشی کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے جذبے اور عمل کی پیروی ہوئی دنیا بھر میں مسلمان ہر سال عید الاضحی کے موقع پر یہ فریضہ دل و جان سے ادا کرتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ جہاں دیگر دینی معاملات میں تساہل کا رواج ہوامگر اس کے اثرات قربانی کی عظیم عبادت پر نہیں پڑے قدرت کو اس عبادت کو تا قیامت اسی طرح زندہ و تابندہ اور اس کی پیروی منظور ہوگا ورنہ مادہ پرستی کے اس دور میں دیکھا جائے تو اس کو بھی متاثر ہونا چاہیے تھا صرف یہی نہیں مہنگائی اتنی ہو گئی ہے اور ہر انسان کے احتیاجات اتنے متنوع اور بڑھ گئی ہیں کہ قربانی کے لیے بجٹ نکالنا دل گردے کا کام ہے اور تو اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل بھی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود بھی کسی نہ کسی طرح قربانی کی سعادت حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں یہ جذبہ قابل صد تحسین ہے دعا ہے کہ سب کی قربانی قبول ہو صاحب استطاعت لوگ جو فرض قربانی کرتے ہیں وہ تو فرض اور لازم و ملزوم ہے اس بارے تو دین کی تعلیمات واضح ہیں البتہ بہت سے لوگ دوسرے اور تیسرے دن تک فرض کے علاوہ جو قربانی کرتے ہیں اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار ہوسکتا ہے ۔ اس میں دوسرے طریقے اختیار کرنے کی گنجائش کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور علمائے کرام کو اس حوالے سے ممکنہ نقطہ نظر کا بیان کرنا چاہیے ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفل قربانی ستم رسیدہ مسلمانوں کے لئے ان کے علاقے میں کی جائے اور ان کی بھی مدد ہو۔ چاہے فرض قربانی ہو یا نفل قربانی اس کی تقسیم میں بخل نہیں ہونا چاہئے اگرچہ قربانی کا گوشت عیالدار افراد کو خود رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن قربانی کے جذبے کا تو تقاضاہی یہ دکھائی دیتا ہے کہ گوشت کی تقسیم ہو اور زیادہ سے زیادہ نادار افراد کو اس میں سے حصہ ملے گائوں اور قصبات میں چونکہ رواداری کا معاشرہ قائم ہے اس لیے وہاں تو اس پر عمل درآمد ہوتا ہوگا مگر شہروں میں اب صرف یہ کہہ کر کہ ہر کسی نے قربانی کی ہوتی ہے لہٰذا پڑوسی پڑوسی کے سامنے جانور تو ذبح کرتا ہے مگر دیوار سے متصل پڑوسی کے گھر گوشت نہیں بھجواتا کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ان کے گھر گوشت بھجواتا اور وہ ان کے گھر گوشت بھجواتا دونوں ثواب کماتے تو کتنا اچھا ہوتا سچ تو یہ ہے کہ اس طرح سے گوشت کی تقسیم ہی بہتر طور پر نہیں ہوتی ۔شہروں میں گوشت مانگنے والے پیشہ وارانہ طور پر گوشت اکٹھا کرنے والے ہوتے ہیں ان کو گوشت دینے کا دل نہیں کرتا اڑوس پڑوس میں سو فیصد لوگوں نے قربانی کی ہوتی ہے لہٰذا ان کو کیا گوشت بھجوانا رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے جائیں یا وہ آئیں تو گوشت کا حصہ دیا جاتا ہے مستحقین کو نہ معلوم حصہ ملتا ہے یا نہیں رواج یہ بن گیا ہے کہ اکثریت نے سال بھر کے لیے فریج اور فریزر میں بھر کے ذخیرہ کرنا ہے بے شک قربانی ہوگئی مگر جذبہ قربانی کی روح تشنہ رہ جاتی ہے عملاً یہی ہو رہا ہے اب تو قربانی قربانی کم اور گوشت جمع کرنے کا دن زیادہ بن گیا ہے معاشرے میں جہاں جہاں یہ رواج ہے وہ تو ہے بدقسمتی سے اب لالچ اور حرص اس قدر غالب آ چکا ہے کہ قربانی کا مقصد زائل یہ عبادت کم اور رسم زیادہ بنتی جا رہی ہے اس کی روک تھام کی ضرورت ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا علما ئے کرام بھی بیان نہیں کرتے اور اس رواج کو عام ہونے سے روکنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ خود علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد پہلے ٹریول ایجنٹس اور پرائیویٹ حج اور عمرہ کرانے والوں کے ایجنٹ بن کر لوگوں کو ان کی طرف ہانکنے کا بزنس شروع کیا اور اب مدارس والے لوگوں کو آسانی سے قربانی کے فریضے کی ادائیگی میں سہولت کاری کی عظیم خدمت ادا کرتے کرتے رفتہ رفتہ محسوس اور غیر محسوس طریقے سے اسے بھی کاروبار بنا لیا ہے اب مدرسے میں قربانی کریں تو پہلے کی طرح معقول نرخ پر نہیں ہوتی کافی مہنگا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں محلے میں سستے اور کافی سستے یہاں تک کہ دس پندرہ ہزار روپے سستا اور نسبتاً بہتر جانور کی قربانی ہو جاتی ہے پہلے مدارس اور محلے میں حصہ داری کے ریٹ میں فرق نہ تھا اب ہوگیا ہے مدارس کو سری پائے اور قربانی کی کھال تو حصہ دار خوشی سے بخش دیتے ہیں اور خدمات و سہولیات کے لیے معقول رقم بھی بخوشی دیتے ہوں گے مگر 10 سے 15 ہزار روپے کا فرق بہت ہے جسے بجا طور پر بوجھ سمجھا جانے لگا ہے شرعی طور پر اس میں قباحت ہو نہ ہو لیکن اہل مدارس کا یہ طریقہ کار اب اعتراض کی زد میں ہے اس پر اہل مدارس کو ضرور غور کرنا چاہیے کہ ان کے اچھے کام اور خدمات پر عدم اطمینان کا اظہار کیوں ہونے لگا ہے جو لوگ گوشت سمیٹ کر فریزر اور فریج بھر کر سال بھر کے لیے ذخیرہ کرنے کا وتیرہ رکھتے ہیں ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا قربانی کی روح اور اس کی حقیقت یہی ہے یا جذبہ ایثار بھی کوئی چیز ہے قربانی عظیم فریضہ اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی عظیم سنت اور حکم خداوندی ہے اسے جانور ذبح کرنے اور گوشت ذخیرہ کرنے کا موقع نہ بنائیں اس عظیم الشان جذبہ قربانی اور عظیم عبادت کی شان میں کمی آ نے نہ دی جائے۔
