ویب ڈیسک: پاکستان پر بین الاقوامی اور مقامی قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، سٹیٹ بینک کے حالیہ اعداد و شمار میں انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ جمہوری دور میں ملکی قرضہ 76ہزار7 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ 2008 سے لے کر مارچ 2025 تک پاکستان کا کل قرضہ 12 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے بعد جب عام انتخابات ہوئے اور 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک کا کل عوامی قرضہ 6ہزار127 ارب روپے تھا، جو 2013 میں ان کے دور کے اختتام تک بڑھ کر 14ہزار292 ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت آئی جس کے پانچ سالہ دور میں قرضوں میں مزید اضافہ ہوا 2018 میں جب ان کا دور مکمل ہوا تو کل قرضہ 24ہزار952 ارب روپے پر پہنچ چکا تھا۔
2018 سے 2022 تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رہی جس نے عوامی قرضوں کو نئی بلندیوں تک پہنچایا، اس دور میں کل قرضہ 49ہزار194 ارب روپے ہو گیا، جو کہ تقریباً دگنا اضافہ ہے۔ شہباز شریف کے پہلے اور موجودہ دور میں 2022 سے قرضوں میں اضافہ کی رفتار نہ صرف برقرار رہی بلکہ انتہائی خطرناک رخ اختیار کر گئی ہے، مارچ 2025 تک سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق کل قرضہ 76ہزار7 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اور ہر نئی حکومت نے سابقہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ قرض لیا مگر معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے عوام کو مزید مہنگائی، بے روزگاری اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ جمہوری دور میں ملکی قرضہ 76ہزار7 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ 2008 سے لے کر مارچ 2025 تک پاکستان کا کل قرضہ 12 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔
