بھارت کی طرف سے پاکستان کے بڑے شہروں پر میزائل حملوں کے باعث مغضوب الغضب پاکستانی عوام جواب کے لئے اپنی حکومت سے مختلف مختلف مطالبات دہرا رہے تھے جن میں ایودھیا کے رام مند ر آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر پر حملے اور شملہ معاہدہ کا خاتمہ بھی شامل تھا ۔ایسے میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کو عوام کی واہ واہ کے لئے آسان مطالبہ شملہ معاہدہ کے خاتمے کا اعلان ہی دکھائی دیا اور انہوں نے اپنے طور پر شملہ معاہد ے کے خاتمے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ آج کے بعد کنٹرول لائن کو سیز فائر لائن لکھا اور پکاراجائے ۔یہ محض ایک سیاسی نعرہ تھا اور اس پر عمل درآمد اور باضابطہ اعلان کے لئے تمام نظریں دفتر خارجہ پر مرکوز تھیں اور آخر کار ترجمان دفتر خارجہ نے باضابطہ اعلان کیا کہ حکومت نے ابھی شملہ معاہدے کے خاتمے کا فیصلہ نہیں کیا ۔اس سب کے باوجود ابھی بھی دھیمے سُروں میں یہ مطالبہ دہرایا جارہا ہے کہ شملہ معاہدے کو ختم کر دینا چاہئے مگر صاف لگتا ہے کہ اس معاہدے کے خاتمے کے باضابطہ اعلان کی نوبت شاید ہی کبھی آئے گی ۔شملہ معاہدے کے خاتمے کا مطلب کشمیر پر بھارت کے ساتھ تعلقات اور راہ رسم کی تمام کشتیاں جلادینا ہوگا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا پہلا معاہدہ تھا جس میں تیسرا فریق مستقل طور پر غائب ہو گیا تھا اور ایک بند کمرے میں تنازعے کے صرف دو فریقوں پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے باہمی طور پر کچھ اصول وضع کئے تھے ۔ان میں سب سے اہم نکتہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی لکیر جو سیز فائر لائن سے کنٹرول لائن کا نام دینا تھا ۔یہ محض ایک اصطلاح اور نام کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک مقدمے کی نئی تشریح اور تعبیر تھی ۔سیز فائر لائن یعنی حدِ متارکہ جنگ کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایسی لکیر جہاں سوائے اس کے کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ گولی چلنا رک گئی ہے۔اس لکیر کے دونوں جانب جو کچھ ہے عارضی ہے اور کوئی بھی واقعہ اور حادثہ سٹیٹس کو توڑسکتا ہے۔حد متارکہ جنگ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں پر ایک بین الاقوامی اور تسلیم شدہ سرحد کے طور اس کا احترام اور پابندی لازم نہیں تھی ۔وہ اقوام متحدہ کے دئیے گئے حق ِسفر کے استعمال کے لئے کنٹرول لائن کو عبور کر سکتے تھے ۔گوکہ یہ سب کتابی باتیں تھیں کنٹرول لائن بننے سے پہلے بھی سیز فائر لائن منقسم کشمیریوں کے لئے موت کی وادی تھی جس کی طرف بڑھنے کی صورت میں کوئی سنسناتی ہوئی گولی سینوں کے پار اُتر سکتی تھی اور کوئی بارودی سرنگ پیروں سے لپٹ کر سب کچھ اُڑ ا سکتی تھے۔سیز فائر لائن کے کنٹرول لائن میں بدلنے اور شملہ معاہدے ہونے کے بعد بھارت نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک پاکستان کو کسی عالمی فورم پر کشمیر پر بات نہیں کر نے دی ۔جب بھی پاکستان نے کشمیر کا معاملہ اُٹھانے کی کوشش کی تو بھارت نے شملہ معاہدہ کا حوالہ دے کر کہا کہ کشمیر تو شملہ معاہدے کے بعد بین الاقومی مسئلہ نہیں رہا یہ دوملکوں کا باہمی مسئلہ ہے اس پر دوملکوں کے فورم پر ہی بات ہو سکتی ہے۔شملہ معاہدہ ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت میں اس وقت ہوا تھا جب پاکستان دولخت ہو چکا تھا اور اس کے نوے ہزار فوجی قید میں تھے ۔اس ماحول میں ایک متوازن معاہدہ ممکن بھی نہیں تھا مگر اس کے باوجود ذولفقار علی بھٹو اپنی ذہانت کے باعث ایک متوازن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔گوکہ اس وقت بھی پاکستان میں شملہ معاہدہ نامنظور کی تحریک چل رہی تھی جو حقیقت میں بھٹو حکومت کے اوپر ایک دبائو کا کام دے رہی تھے ۔کہا جاتا ہے کہ شملہ معاہدہ کا ایک غیر تحریری حصہ بھی تھا جس میں
بھٹو صاحب اندراگاندھی کو یہ یقین دلاچکے تھے کہ وطن واپس جانے کے بعد وہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنا کرکنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنادیں گے۔بعد ازاں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی تھی ۔پاکستان شملہ معاہدے کے ایک نفسیاتی حصار میں مقید رہا اور یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی جار رہا ۔زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں غیر جابندار ملکوں کی کانفرنس میں کشمیری لیڈر کے ایچ خورشید اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے پہنچے اور انہوںنے کشمیر سے متعلق پمفلٹ تقسیم کرنا شروع کئے تو بھارت شملہ معاہدے کی دہائی دینے لگا ۔یہاں تک جنرل ضیاء الحق بھی بھارت کے اس احتجاج سے اس قدر گھبرا گئے تھے کہ جب ان کا مسٹرکے ایچ خورشید سے لابی میں آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے ان کی آمد اور سرگرمیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔اس دور میںپاکستان کی زباں بندی کے باعث ایک پوری نسل ہی مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے بے خبر ہو چکی تھی ۔جنرل ضیاء الحق کشمیر پر اس حد تک دفاعی پوزیشن اختیار کئے تھے کہ وہ بھارت کو مسلسل ایک اور معاہدے یعنی معاہدہ عدم جارحیت کی پیشکش کرتے رہے ۔گویا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے شملہ معاہدے کے اوپر ایک اپنا معاہدہ عدم جارحیت چاہتے تھے ۔کے ایچ خورشید نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہرارے میں چند ملکوں کے نمائندوں کے سوا کسی کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں علم ہی نہیں تھا ۔ظاہر ہے جب پاکستان نے کسی عالمی فورم پر مسئلہ اُٹھایا ہی نہیں تو دنیا کو کس طرح اس کی خبر ہونا تھی۔شملہ معاہدے کی زنجیر توڑنے کا کار ِخیر بھی بھارت نے انجام دیا ۔1984میں بھارت نے سیاچن گلیشئر پر یک طرفہ طور پر قبضہ کرکے کنٹرول لائن کا سٹیٹس بدل دیا ۔بھارت نے نومنز لینڈ پر قبضہ کرکے پاکستان کو شملہ معاہدے کے بوجھ سے آزاد ہونے کا راستہ دکھا دیا۔یوں شملہ معاہدہ کے نفسیاتی اثرات کمزور پڑنا شروع ہوگئے ۔اس معاہدے کی موجودگی
میں کشمیر میں 1988میں ایک زوردار مزاحمت کا آغاز ہوگیا اور کشمیری نوجوان کنٹرول لائن توڑ کر آرپار آنے جانے لگے ۔یہ کشیدگی آگے چل کر کرگل کی جنگ تک پہنچی جب کنٹرول لائن پر شدید لڑائی چلی اور امریکی صدر کلنٹن کی کوشش سے ختم ہوئی ۔شملہ معاہدہ پاکستان میں ایک ناپسندیدہ دستاویز کے طور ہر مشہور رہا ۔پاکستانی سیاست میں یہ معاہدہ آخری بار شدومد کے ساتھ اس وقت زیر بحث آیا جب 1988کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلزپارٹی کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تو اسلامی جمہوری اتحاد نے پیپلزپارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے اس عبارت پر مشتمل بڑے بڑے اشتہار اخبارات میں شائع کرائے ”تم نے ڈھاکہ دیا ہم نے کابل لیا ،اب لینا ہے کشمیر ،ٹوٹے شملہ کی زنجیر”۔اس نعرے کو حسین حقانی کے ذہن کی اختراع سمجھا جا تا تھا ۔نوے کی دہائی کے بعد جب کشمیری ایک فریق بن کر جانیں دینے لگے تو بھارت کی طرف سے شملہ معاہدہ کی رٹ کم اور دھیمی ہوتی چلی گئی۔ اس دوران پاکستان نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت کئی عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اُٹھا کر عملی طور پر شملہ معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔یوں شملہ معاہدے نے دونوں فریقوں کو محدود فوائد دئیے جن میں پاکستان اپنے قیدی چھڑا لایا اور بھارت کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کسی عالمی فورم یا تیسرے مقام پر اُٹھانے سے گریز کی پالیسی اپنالی۔سیز فائر لائن کے ہوتے ہوئے بھی کشمیریوں کی آمدورفت بند تھی اور کنٹرول لائن بننے کے بعد بھی یہ لکیر ان کے لئے نوگوایریا ہی رہی ۔کنٹرول لائن توڑنے کی کوششوں کو کبھی بھارت نے طاقت سے روکا اور کبھی بھارت نے پاکستان کو دھمکی دے کر مظاہرین کو طاقت کے ذریعے رکوایا۔اب معاملہ ایک اصطلاح کی تبدیلی کا نہیں معاملہ قوت ارادی کا ہے ۔اگر پاکستان سٹیٹس کو توڑنے کی پوزیشن میں ہوگا تو کوئی اصطلاح اس کام میں آڑے نہیں آسکتی کیونکہ نام میں کیا رکھا ہے؟اصل سوال یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے دوبارہ سیز فائر لائن بننے کے بعد زمین پر کوئی تبدیلی آسکے گی؟
