اب معلوم نہیں اسے مذہبی تعصب کہا جائے یا پھر ضعیف الاعتقادی کی وہ جو متحدہ ہندوستان کے دنوں میں یعنی جب بھارت اور پاکستان علیحدہ نہیں ہوئے تھے یا یوں سمجھئے کہ ہندوستان کا بٹوارا نہیں ہوا تھا تو ریلوے سٹیشنوں پرپشاورسے دلی اور لکھنؤ ‘ بمبئی وغیرہ تک چلنے والی ریل گاڑیوں کے مسافروں کوپینے کا پانی ہر دو مذاہب کے ماننے والے پیش کرتے ہوئے یہ نعرے لگاکر اپنی جانب متوجہ کرتے تھے کہ ”ہندو پانی ‘ مسلمان پانی”حالانکہ دونوں پانی وہیں سٹیشنوں پر نصب سرکاری نلکوں سے ہی اپنی اپنی بالٹیوں میں بھر کر(گرمی میں برف ڈال کر) مسافروں کو بیچا جاتا ‘ بات دراصل اتنی تھی کہ ہندو اپنے گلاسوں کو کسی مسلمان کوچھونے نہیں دیتے تھے اور ان کے عقیدے کے مطابق کسی مسلمان کے ہندوئوں کاگلاس چھو جانے سے وہ بھر شٹ یعنی ناپاک ہوجاتا ہے اسی طرح مسلمان بھی یہی تصور کرتے کہ ہندوئوں کے جھوٹے یا ہونٹ لگے برتن میں کھانا پینا ‘ ناپاک ” ہے اب بھی بھارتی فلموں ‘ ڈراموں میں ہندو کردار گلاس کے ساتھ منہ لگا کر پانی پیتے نہیں دیکھے جاتے بلکہ وہ گلاس کا پانی دوسرے ہاتھ کو چلو بنا کر اس سے پیاس بجھاتے دیکھے اس سلسلے میں ہم نے اپنے بزرگوں سے جوسنا ہے وہ ہشتنگری کے علاقے میں واقع ”پنج تیرتھ” کے مختلف تالابوں میں خود تو اشنان کرتے تھے مگر کوئی مسلمان وہاں جاتا تو اسے کسی بالٹی یا بڑے برتن میں پانی دے کر کچھ فاصلے پر نہانے کی اجازت دیتے اسی طرح ان کے ہاں گنگا کا پانی”پوتر” یعنی مقدس قرار دیا جاتا ہے اور اس میں نہانے سے ان کے عقیدے کے مطابق سارے گناہ دھل جاتے ہیں بہرحال نفرت اور تعصب یکطرفہ نہیں رہی اور مسلمانوں کے ہاں بھی ہندوئوں سے نفرت اور ان کے برتنوں میں کھانا پینا”گناہ” کے زمرے میں شامل ہو کر ”جواب آں غزل” کا باعث بن گیا یعنی بقول شاعر
کہاں تو ڈھونڈنے آیا گل اخلاف کی خوشبو
یہاں تو بغض اگتا ہے محبت کی زمینوں میں
اس حوالے سے جو تازہ خبر سوشل میڈیا پر مصر سے وائرل ہوئی ہے اس کو اگرچہ ہمارے ہاں کسی اخبار یاسوشل میڈیا ایپس نے قابل توجہ نہیں سمجھا تاہم بھارت کے ایک اردو اخبار نے اسے دو کالمی خبر کے طور پر نئی دہلی ڈیٹ لائن سے شائع کیا اور خبر کی تفصیل کے مطابق مصر کے ایک مولانا نے ٹماٹروں کے بارے میں فتویٰ دیتے ہوئے اس سبزی کو عیسائی قرار دے کر مسلمانوں کو کھانے سے منع کر دیا ہے گویا سبحان اللہ ‘ بلکہ ماشاء اللہ کہ ہم تو برصغیرمیں ہندوئوں کی تنگ نظری کا رونا صدیوں سے رو رہے ہیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے ہندو پانی اور مسلمان پانی کے فلسفے سے متاثر ہو کر مشکل سے دو چار ہیں جبکہ ایک ہی سرکاری نلکے سے سپلائی کئے جانے والا پانی صرف علیحدہ علیحدہ برتنوں میں ڈالنے کے بعد اس پانی کے مذہب کا تعین کرتے رہے ہیں ممکن ہے بھارت میں ریلوے کے پورے نظام میں ہزاروں ریلوے سٹیشنوں پر ہندو اور مسلمان پانی کی یہ تقسیم اب بھی جاری ہو تاہم یہ جو مصر کے ایک مولانا صاحب نے سبزیوں کو مسلمان اورعیسائی بنانا شروع کر دیا ہے اور معاملہ صرف متعلقہ مفتی صاحب تک محدود نہیں رہا بلکہ (Egyptain Islamic Association)ایجپشن اسلامک ایسوسی ایشن نے بھی مولانا سلانی شیخ کے اس فتوے کو جاری کرکے ٹماٹروں کا مذہب عیسائیت قرار دے دیا ہے اگر ان کے اس فتوے کودیگر اسلامی ممالک نے بھی ”پذیرائی”بخشتے ہوئے اس دلیل کوتسلیم کر لیا کہ ٹماٹر کو جب دو حصوں میں کاٹا جاتا ہے تو اندر سے اس میں کراس نظر آتا ہے جو عیسائیوں کے مذہب کی نشانی ہے اس لئے مسلمان ٹماٹر نہ کھائیں بلکہ خبر کے مطابق مولانا سلانی شیخ نے اسے مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا جبکہ اسلامی ایسوسی ایشن نے اپنے فیس بک پیج پر کٹے ہوئے ٹماٹر کی تصویر بھی لگائی ہے اس کے ساتھ یہ پیغام بھی شیئر کیا ہے کہ بقول اخبار”سبھی مسلم اس بات کو سمجھیں کہ ٹماٹر ایک عیسائی پھل ہے ”تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ اخباری خبر کے مطابق مولانا شیخ سلانی اس سے پہلے بھی کئی عجیب وغریب فتوے جاری کر چکا ہے اس پر ہمیں مرزا محمود سرحدی مرحوم یاد آگئے ہیں جنہوں نے اگرچہ عید کے حوالے سے ایک قطعہ کہا تھا تاہم اس کے صرف دو مصرعے پیش خدمت ہیں کہ
ہماری عید ہے ہم ہرطرح منائیں گے
ہمارا شیخ کے فتوے پہ اعتبار نہیں
اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس فتوے کو دیگر مسلمان ملک تو ایک طرف خود مصر کے عوام نے بھی قبول نہیں کیا کیونکہ بھارتی اخبار نے یہ خبر گزشتہ سال اگست کے مہینے میں شائع کی تھی جس کے بعد مسلم دنیا کے کسی بھی حصے سے اس فتوے کے حوالے سے اس پر عمل درآمد کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر مسلم ہونے کا یہ فتویٰ صرف ٹماٹر پر ہی کیوں لگایا گیا ہے اور اگر ایسے فتوئوں پر عملدرآمد شروع ہو گیا تو پھر تو زندگی بہت مشکل ہو جائے گی ‘ اور پھر تحقیق کے نئے در کھلنے شروع ہو جائیں گے کہ جتنے بھی پھل ‘ فروٹ ‘ سبزیاں وغیرہ وغیرہ رب کائنات نے تخلیق کی ہیں ان کے حوالے سے محققین کو طویل ریسرچ پیپرز لکھ کر یہ بتانا ہو گا کہ کونسے پھل ‘ کونسی سبزیاں ‘ کونسے پھول وغیرہ وغیرہ کس کس زمانے میں کن قوموں کے ادوار میں کاشت کئے گئے اور ان ادوار میں کس کس پیغمبر نے اللہ کی وحدانیت کا سبق پڑھا کر اپنی امتوں کو ا ن میں سے کس کس چیز کے کھانے سے منع کیا ‘ ماسوائے (اسلامی تعلیمات) کے مطابق کہ سور کا گوشت نہیں کھانا چاہئے ‘ اسی طرح حلال جانوروں کی بھی نشاندہی کی ‘ مگر ٹماٹر سے منع کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے محققین کو اس بات کابھی تعین کرنا پڑے گا کہ کیا ٹماٹروں کی کاشت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوئی یا ان کے دور میں ان کو اگایاگیا اور اس وجہ سے یہ صرف عیسائی ہی کھانے کے مکلف ہیں؟ ویسے بھی چونکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی چار کتابوں تورات ‘ زبور ‘ انجیل اور قرآن پر ایمان لائے بغیر مسلمان نہیں کہلا سکتے اس لئے اس حوالے سے بھی دیکھا جائے توٹماٹر خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور ہی میں کیوں نہ کاشت کئے گئے ہوں ان کے کسی مسلمان کے کھانے پر قدغن کیونکر لگائی جا سکتی ہے ؟ اس طرح تو یہودیوں نے آسمان سے اترنے والی من و سلویٰ کھانے سے اکتا کر اللہ تعالیٰ سے موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے لہسن مانگ کر ا طمینان کا سانس لیا تھا تو پھر یہودی تو مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں اس لئے کل کوئی اٹھ کر لہسن کھانے کے خلاف بھی فتویٰ دے دے گا تو کیا اس پر بھی مسلمان عمل درآمد شروع کر دیں گے ؟ یہ تو اچھاہے کہ مولانا شیخ سلانی کے بارے میں اس سے پہلے بھی عجیب و غریب قسم کے فتوے جاری کرنے کی خبریں گردش میں ہیں اس لئے ہم تو محققین خصوصاً زراعت کے شعبے کے ماہرین سے گزارش کریں گے کہ مولانا شیخ سلانی کے ”عجیب وغریب”فتویٰ کو یکجاکرکے عوام ا لناس کی ”خبرداری” کے لئے جاری کر دیں تاکہ لوگ انہی اشیاء کو بغیر کسی حیل حجت کے کام میں لایا کریں اور ان فتوئوں کو ”فتاویٰ عالمگیری” کی طرز پر ”فتویٰ سلانی” کے نام سے شائع کرنے میں بہتوں کا بھلا ہو گا۔ کہ ان فتوئوں کوالٹ تعبیر دیتے ہوئے عبدالحمید عدم کے اس شعر کو بطور سند ذہن میں رکھا جا سکتا ہے کہ
بارش شراب عرش ہے ‘ یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا
