ویب ڈیسک: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ 4ہزار ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی ختم کر دیا گیا ہے، جبیک ہ چھوٹے کسانوں کو قرضے دیںگے. پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیرف اصلاحات بہت اہمیت کی حامل ہیں، ٹیرف اصلاحات سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا، مجموعی طور پر 7 ہزار ٹیرف لائنز ہیں، 4ہزار ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی ختم کر دیا گیا ہے، اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30 سال میں پہلی بار کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سالوں میں ٹیرف میں کٹوتی کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور ٹیرف کے پورے نظام میں مجموعی طور پر 4 فیصد کمی کی جائے گی، اصلاحات لا کر ملک کو معاشی طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ حکومت جو کچھ دے رہی ہے قرضے لے کر دے رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ سٹرکچرل ریفارم کے حوالے سے بہت بڑا قدم ہے اور ہم اسے مزید آگے لے کر جائیں گے، تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دیا ہے.
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں، پنشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے، وفاقی حکومت جو کچھ دے رہی ہے وہ قرضے لے کر دے گی، حقیقت یہ ہے کہ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، تنخواہ یا پنشن کی بات ہو تو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے، ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے، مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے 7 فیصد ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔
وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی، حکومت نے کم سے کم اجرات کو نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، کم سے کم اجرت کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا۔
محمد اورنگزیب نے پریس کانفرنس میںتوانائی اصلاحات پر بھی تفصیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کر لیں یا ٹیکس لگا دیں، اس حوالے سے قانون سازی کیلئے دونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی شعبے میں کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا، چھوٹے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے دیئے جائیں گے، حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جتنا ہو سکے ریلیف فراہم کیا جائے، پنشن کے حوالے سے بھی اصلاحات کی گئی ہیں، پچھلے سال ہمیں اضافی ٹیکسز لگانے پڑے کیونکہ جب ہم عالمی اداروں سے بات کر رہے تھے تو وہ ہماری بات ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کہ اس ملک میں ٹیکسز کا نفاذ ہوسکتا ہے، قوانین بھی موجود ہیں، قانون سازی بھی ہو رہی ہے، ٹیکسز بھی موجود ہیں لیکن ہم انہیں نافذ نہیں کر پا رہے تھے، اس سال ہم نے جو ٹیکسز کا نفاذ کیا ہے کہ وہ 400 ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال ٹیکسز کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح 10 اعشاریہ 3 فیصد ہے جو کہ اگلے سال 10 اعشاریہ 9 فیصد ہوگی، 22 کھرب کی جو بات کی گئی ہے، اس میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب روپے ہیں، اس بارے میں سوچیں کہ 22 کھرب میں صرف 312 ارب کے اضافی ٹیکسز ہیں اور باقی خود کار نمو اور نفاذ کا پہلو ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اب ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور دونوں ایوانوں سے بات کریں گے اور ٹیکسز کے نفاذ کیلئے قانون میں ترمیم کریں گے کیونکہ اگر ٹیکسز کا نفاذ نہیں کر سکے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنا پڑیں گے،پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کیلئے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے۔
