وفاقی بجٹ ‘ توقعات اور خدشات؟

اگرچہ بجٹ کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن ہے جو امید کر رہے تھے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں آنے والا معاشی استحکام بڑی اوربامعنی اصلاحات کا باعث بنے گا جس سے معیشت کی طویل المدت ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے 17 ہزار 573ارب سے زائد کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے لئے دس فیصد جبکہ پنشنرز کے لئے سات فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے پٹرول ‘ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ کاربن لیوی عاید کرنے کا بھی اعلان کیا ہے دفاعی بجٹ میں 20فیصد اضافے کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی اخراجات کے لئے 2550 ارب روپے مختص کئے ہیں ‘ غیر رجسٹرڈ کاروبار پر 50 لاکھ روپے جرمانہ ‘نان فائلرز کے لئے جائیداد ‘ گاڑی اور شیئرز خریدنے پرپابندی ‘ جائیداد خریداری پر ایف ای ڈی کا خاتمہ ود ہولڈنگ ٹیکس 4 سے کم کرکے 2.5فیصد ‘ سٹامپ پیپرز ڈیوٹی بھی چار سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے ‘ نان فائلرز کے بینک سے رقوم نکلوانے پر عاید ٹیکس اعشاریہ 6 فیصد سے بڑھا کر ایک فیصد کر دی گئی ہے ‘غیر رجسٹرڈ کاروبار پر پچاس لاکھ روپے جرمانہ عاید کیا جائے گا’ وفاق کے ساتھ چپقلش کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو 266 ارب روپے کم ملنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ‘ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام دشمن اور اشرافیہ نواز بجٹ قرار دیا ہے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اس بجٹ کو غریب سے روٹی چھیننے اور امیروں کو نوازنے کی دستاویز قرار دیا ‘ قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمر ایوب اور دیگر پارٹی رہنمائوں نے بجٹ پرسخت تنقید کی ‘ ادھر سرکاری ملازمین نے بھی تنخواہ میں دس فیصد اضافے کو مسترد کرتے ہوئے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کیا ‘ سرکاری ملازمین نے احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی وفاقی بجٹ کو کاروباری طبقے کی توقعات کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت معیشت و کاروبار اورانڈسٹریز کی ترقی کے بجٹ تجاویز پر نظر ثانی کرے ‘ اس حوالے سے سب سے اہم بیان خود وزیر اعظم شہباز شریف کا ہے جنہوں نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں سنگین چیلنجز کا سامنا کرنے کوکامیابی قرار دیا ‘ تاہم انہوں نے ایک بہت اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دارطبقہ پوچھتا ہے کہ اشرافیہ نے کتنا بوجھ اٹھایا ہے وزیر اعظم نے اگر خود ہی یہ سوال اپنی حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے رکھ دیا ہے تو اس کا جواب بھی آنا لازمی ہے کیونکہ ابھی حال ہی میں ایک خبر کے مطابق تنخواہ دار طبقے کے اشرافیہ(جس میں صنعتکار ‘ جاگیردار ‘ بڑے سرمایہ کار ‘ اراکین پارلیمنٹ اور وہ طبقات جولاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں شامل ہیں) وہ مراعات کی صورت میں جتناقومی خزانے سے حاصل کرتے ہیں ان کے ٹیکس کلیکشن کا عام تنخواہ دار طبقات کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کیونکہ تنخواہ دار طبقات قومی خزانے کو جتنا ٹیکس دیتے ہیں یہ مراعات یافتہ طبقات اس کا عشر عشیر بھی ملکی نظام چلانے کے لئے ادا نہیں کرتے ‘ اس لئے اگر بقول وزیر اعظم تنخواہدار طبقہ اشرافیہ کے بارے میںسوال اٹھاتا ہے تو اس پر نہ تو کسی کو اعتراض کرنا چاہئے نہ ہی اسے غلط قراردیا جاسکتا ہے جہاں تک بجٹ تجاویز کی بات ہے تو ابھی تو بجٹ پیش ہوا ہے اور حسب سابق جہاں سرکاری حلقے اسے سود مند قرار دیں گے وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں اس میں نقائص تلاش کریں گی تاہم جب بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث ہوگی تو نئی ایک مزید معلومات ‘ اچھائیاں ‘ کمزوریاں سامنے آئیں گی ا لبتہ ایک بات پر یقینا اختلاف کی کوئی گنجائش ہوگی نہ اس پر کسی کواعتراض ہوگا اور وہ ہے دفاع کے لئے بجٹ میں بیس فیصد ا ضافے کی تجویز ناگزیر ضرورت ہے اور حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اپنا پیٹ کاٹ کر دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جائے اس کے باوجود دشمن ملک کے مقابلے میں ہمارا دفاعی بجٹ بہت کم ہے حالیہ پاک بھارت مختصر تصادم کے تناظر میں دفاعی اخراجات کے لئے بیس فیصد اضافے کی ڈیمانڈ جائز اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ضروری ہے اسی طرح پانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے مہمند اور دیامیربھاشا ڈیم کے لئے رقوم مختص کرنے کے علاوہ مزید آبی ذخائر پر بھی پیش رفت ضروری ہے کیونکہ ہمیں بھارت جیسے کم ظرف ‘ منافق او ردھوکہ باز دشمن کا سامنا ہے جوپانی کے معاملات پر کسی بھی وقت ہمیں مشکلات سے دو چار کرسکتا ہے جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کاتعلق ہے تو مہنگائی کی بڑھتی ہوئی صورتحال میں یہ اضافہ بہت کم ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردگروہوں کا گٹھ جوڑ