وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سرمایہ کاروں کا عوام دوست بجٹ پر اعتماد کا اظہار ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے قانون سازی نہ ہونے پر منی بجٹ لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں، ٹیکسز کا نفاذ نہیں کر سکے تو ہمیں 400سے 500ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا ساتھی پارلیمنٹیرینز کی جانب سے نئی قانون سازی کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے جو ایف بی آر کو ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس سے متعلق قانونی چارہ جوئی کے لیے بڑے پیمانے پر تعزیری اختیارات فراہم کرے گی، اس مزاحمت کی نشاندہی کرتی ہے جس کا انھیں اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی طرف سے خوف ہے۔اس کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔وزیر اعظم کی خوش گمانی اور خوش امیدی کی ٹھوس وجوہات اور اقدامات کی تلاش کی ضرورت ضرور ہونی چاہئے تاہم ایسا لگتا ہے کہ کسی خوشگوار صورتحال سے دو چار ہوے کا امکان کم ہی ہے بہرحال ایک جانب وزیر اعظم کا بیان اور دوسری جانب وزیر خزانہ جو ”فرما” رہے ہیںاس کا مطلب و مفہوم یہی نکلتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیںاور صرف بجٹ میں لگائے گئے پوشیدہ و علانیہ بوجھ ہی نہیں عوام کو مزید بوجھ اٹھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے بدگمانی میں شمار نہ ہوتو حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر کبھی بھی ٹیکسوں کی وصولی اور ہدف کو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی اور ٹیکس سے بچنے کے لئے وہ راہیں ڈھونڈی جاتی ہیں جو وہم و گمان میں نہیں ہوتا حکومتی اقدامات اور قوانین کے مقابلے میں قانون کو دھوکہ دینے والے دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں اگر صورتحال یہی رہی تو خدانخواستہ چار سے پانچ سو ا رب کے اضافی ٹیکس بھی لگ سکتے ہیں اس صورتحال میں سوائے اس کے اور کوئی مشورہ سجھائی نہیں دیتا کہمروجہ ٹیکس کی وصولی کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کئے جائیں اور قوم پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز کیا جائے ۔
