اسرائیل کا ایران پرحملہ خطے میں ہی نہیں عالمی طور پر عدم استحکام اور کشیدگی کا باعث امر ہے ابتدائی حملے ہی میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے حساس مقامات اور اہم فوجی و جوہری شخصیات کو نشانہ بنانے میں کامیابی محض دشمن کا کارگر وار نہیں بلکہ اس سے ایران میں اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک کے غیر معمولی طور پر موثر ہونے کا بھی عندیہ ملتا ہے قبل ازیں فلسطینی رہنما اسماعیل ہانیہ کوبھی ایران میں نشانہ بنایا گیاتھا جس کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پرداخلی نظام میں تطہیر اور مشکوک افراد سے پاک کرنے کی جو ضرورت سامنے آئی تھی اس مرتبہ کے ایرانی قیادت اور تنصیبات پر حملے کے بعد اب اس بارے دوسری رائے نہیں کہ اسرائیل ایران میں داخلی محاذ پر کس قدر مدخل ہے ۔جس سے قطع نظر اب اسرائیل کو ایران کے سخٰ ردعمل کا مقابلہ کرنا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بھی ایران کے دفاعی تنصیبات او ر فوجی مقامات پر مزید حملے کا کہا گیا ہے اسرائیل کی جانب سے ایران پر وار غیر متوقع ہر گز نہیں تھا نیز یہ صرف حملہ نہیں بلکہ مکمل جنگ تھی جس میں یورنیم کی افزودگی کی تنصیبات کو نشانہ بنانے اور تباہی کی تصدیق ہو چکی ہے اس سے پھیلنے والی تباہی کے حوالے سے دم تحریر کسی قسم کی صورتحال واضح نہیں۔ ایران کی فضائی صلاحیت کی کمزوری کی بنیادی وجہ دہائیوں سے ایران کی پابندیوں کا شکار رہنا ہے جس کے باعث ایران بہتر جنگی صلاحیت کے حامل طیاروں کے حصول سے محروم رہا ہے ایسے میں ایران کی واحد طاقت اس کا طاقتور میزائلوں کا نظام اور ڈرونز ہیں جس سے اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے لئے عراق و اردن کی فضا ہی میں برطانیہ ‘امریکہ اور دیگر ممالک متحرک ہیں امریکی پریشانی اور اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے میں ہلہ شیری دینے اور خود اسرائیل کی عجلت کے پس منظر کا اگر جائزہ لیاجائے تو کہیں نہ کہیں ایک اسلامی پاکستان کا بھارت کے خلاف حیران کن حد تک کامیابی حربی حملے اور دفاعی نظام کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی ہے نیز ایران پر اسرائیلی حملہ دنیا کا ردعمل بھی دیکھنا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ طاعوتی طاقتیں کبھی بھی کسی اسلامی ملک کے عسکری طاقت ہونے کو برداشت نہیں کر سکتے ان کے مطابق مسلم ممالک کو ہتھیار بنانے اور اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کا حق بھی حاصل نہیں اور وہ شبہ کی بنیاد پر کسی بھی ملک پرحملہ کر سکتے ہیںقبل ازیں عراق کے تباہ کن ہتھیاروں کا بے پناہ پراپیگنڈہ کیا گیا اور جب کارروائی کی گئی تو وہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق تھا مگر ایران کی صلاحیتیں اور کامیابیاں بہرحال قابل ذکر ہیں اب ایران کس قدر دفاعی صلاحیت اور حملوں کا حامل ملک ہے اس کی صلاحیت کے مظاہرے کا وقت ہے ایران نے ڈرون بھیجنے کا جوسلسلہ شروع کیا ہے اس کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا نیز ایران میں اسماعیل ہانیہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت کے موقع پراسرائیل نے جس طرح ایران کی سا لمیت کو چیلنج کیا تھا اس وقت تہران نے اس قوت سے جواب نہیں دیا اور نہ ہی ان کی کوئی ایسی صلاحیت سامنے آئی جس سے اسرائیل ‘ ایران پر حملے کے وقت سوبار سوچنے پر مجبور ہوتا۔ اگر اس وقت ہی گربہ کشتن روز اول کا مظاہرہ کیا جاتا تو حالیہ حملوں کی نوبت ہی شاید نہ آتی۔ اسماعیل ہانیہ کی رہائش گاہ کا پتہ لگا کر ان کونشانہ بنانے کے موقع پر تہران کا تل ابیب کو جواب کمزور نامکمل اور غیر موثر تھا تہران کا نبض دیکھنے کے بعد ہی اسرائیل کویہ حوصلہ ملا ۔المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کی دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے غزہ کی تباہی کے بعد اب وہ ایران کی طرف متوجہ ہے جبکہ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ میں اسرائیل بھارت کا عملی طور پر مدد گار اور مشیر تھا ایران پرحملے کے ساتھ ہی پاکستان کے حوالے سے بھی خطرات میں اضافہ ہونا فطری امر ہے جس پر یقینا پاکستانی عسکری قیادت کی کڑی نظر ہوگی۔ ایران ‘ اسرائیل کی راہ کا آخری کانٹا نہیں بلکہ کوئی اور ملک ہے مغربی ممالک نیٹو اور امریکہ اسرائیل کے پشت پناہ ہیں ایک ایک کرکے جنگلی محاذ کھلتے جارہے ہیں پاکستان خواہ کس قدر بھی محتاط رہے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ پاکستان گرم محاذ ہے ایسے میں دفاعی صلاحیت پر خراب معیشت کے باوجود پوری توجہ کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔اس ساری صورتحال میں امت مسلمہ کااتحاد اور مشترکہ طور پر خطرے کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی مؤثر تو ہو سکتی ہے مگر اس تجویز کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی اسلامی ممالک میں ایران کے لئے وہ حمایت نظر آتی ہے اس کے باوجود بھی امت مسلمہ کو یکے بعد دیگرے نشانہ بننے سے خود کو محفوظ رکھنے کا کوئی نہ کوئی راستہ اور لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ریت کی دیوار ہونے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیئے رکھنے کا انجام سبھی کو معلوم تو ہے اس کا ادراک بھی ہے مگر طاری بے چینی کچھ کرنے نہیں دیتی۔اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کو مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورے مشرق و سطیٰ کو نگل جائے گا۔
