سوشل میڈیا نے معاشرے کو برہنہ کردیا ہے ۔جب تک سوشل میڈیا نہیں تھا لوگوں اور خرابیوں پر پردے پڑے ہوئے تھے ۔اب لوگوں نے اپنی اصلیت دکھانے اور تہذیبی تربیت نہ ہونے کا جو سلسلہ سوشل میڈیا پر شروع کررکھا ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جہالت کے انتہائی درجے میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ بہت سارے مذہبی شعائر بھی اب لوگوں کی نمائشی کاموں کی نذر ہورہے ہیں ۔ قربانی سنت ابراہیمی ہے ۔پوری دنیا کے لوگ اس سنت کو ہر برس بقر عید پر زندہ کرتے ہیں ۔ عرب ممالک اور دیگر خطوں میں صرف صاحب استطاعت پورے گھر کے لیے ایک جانور قربان کرتے ہیں اور اس عمل کو نہایت احترام کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں ۔ پاکستان میں اب قربانی کرنا نمائش کا ایک مستقل ذریعہ بن گیا ہے ۔جانوروں کی قربانی کرنا ایک اچھا عمل ہے مگر اس کی سوشل میڈیا پر مسلسل تشہیر کرنا اور اس کو ایک فیشن بنانا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں غربت بہت زیادہ ہے مگر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگ اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کی جگہ ایک دوسرے کی ضد میں لاکھوں روپے غیر ضروری طور پر خرچ کرتے ہیں ، شادی بیاہ ہو یا قربانی ان میں نمائشی عنصر بہت زیادہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ جو لوگ اتنا نمود و نمائش کررہے ہیں اور کروڑوں روپے سرعام خرچ کررہے ہیں اور پھر اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں ان کا ذریعہ آمدن کیا ہیں اور کیا یہ لوگ ٹیکس دیتے ہیں ۔ اس ملک میں ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا جاتا ہے باقی ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس بے پناہ دولت جمع ہوگئی ہے لیکن ان لوگوں سے حکومت کسی طرح کا ٹیکس وصول نہیں کرتی ۔بقر عید کے دنوں میں منڈیوں میں بعض جانوروں کی قیمت کروڑ روپے سے بھی زیادہ ادا کی گئی ہے یہ اسراف نہیں ہے تو کیا ہے ۔ان پیسوں سے کئی ایک اچھے کام کیے جاسکتے تھے مگر چونکہ دکھاوے کا مرض اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کا علاج اب کسی کے پاس نہیں ہے ۔جبوتی دارالسلام مسلمان ملکوں میں سب سے امیر ملک ہے وہاں کسی کو ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔یہی صورتحال انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک کی ہے ۔لائیو سٹاک کے حوالے سے حکومتی پالیسی بہت ہی ناکارہ ہے ۔پاکستان کی گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان میں موجود لائیوسٹاک ناکافی ہے ۔ پہلے افغانستا ن سے بھی جانور پاکستان لائے جاتے تھے ۔ مگر اب وہاں سے وہ سلسلہ کم ہوگیا ہے البتہ ہندوستان سے بہت زیادہ تعداد میں جانور پاکستان لائے جاتے ہیں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ اس شعبہ کی حوصلہ افزائی کرے اور اس پر سرمایہ کاری کرے اور اس مد میں لوگوں کو بنیادی سہولیات دی جائیں جیسا کہ امریکہ ، برازیل ،انڈیا اور چین دے رہے ہیں ۔پھر ہمارے ملک میں سلاٹر ہاوسز نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے ہر کونے اور ہرجگہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں جس سے صفائی اور بیماریوں سے بچاؤ کے اقدمات مشکل تر ہوتے جارہے ہیں ۔پاکستان کو چھوڑ کر باقی اسلامی ممالک میں باقاعدہ سلاٹر ہاوسز بنے ہوئے ہیں جہاں قربانی کے جانور بھی ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی الائشوں کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے ۔ہم دنیا کو ان کاموں میں فوراً نقل کرنا شروع کردیتے ہیں جو نقصان دہ اور ضرررسان ہیں مگر دنیا کے اچھے اور سلیقے والے کاموں کا اثر ہم پر ذرا برابر نہیں ہوتا ۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس میں شعائر اسلام کی پابندی کرنا ہم پر فرض ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم لوگ نمود نمائش میں ان شعائر کو شامل کررہے ہیں ۔ قربانی کا فلسفہ اور اس کی اہمیت کو سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا اب وقت کی ضرورت ہے مگر جو چلن اس ملک میں چل نکلا ہے وہ آگے جاکر بہت سارے مسائل کو جنم دے گا ۔ قربانی کے دن جب قریب آتے ہیں تو پاکستان میں جانوروں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں ۔ سو کلو کا جانور دو لاکھ میں فروخت ہوتا ہے جبکہ بازار میں اسی وزن کا گوشت اسی ہزار میں دستیاب ہوتا ہے ۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ریٹ مقرر کرے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے ۔بہت سارے علاقوں میں جانور تول کر بیچنے کا کلچر بھی رواج پارہا ہے مگر زندہ جانور کا فی کلو ریٹ بہت زیادہ مقرر کیا جاتا ہے اگر حکومت اور خصوصاً شہری انتظامیہ اس سلسلے میں کچھ اصول و ضوابط بنا کر اس سلسلے کو کنٹرول کرے تو بھی لوگوں کو قربانی کرنے میں سہولت مل سکتی ہے ۔ گوشت کے لیے جانوروںکی فارمنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری کرکے خود روزگاری کا ایک اچھا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے اور اس سے پاکستان میں گوشت کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے مگر اس جانب حکومت کی عدم توجہی اور سہولت کے فقدان کی وجہ سے زیادہ لوگ راغب نہیں ہورہے ۔ پہاڑی علاقوں میں گلہ بانی کا رواج تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے اس وقت جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں کچھ علاقوں میں گلہ بانی کا رواج باقی رہ گیا ہے اگر ان علاقوں میں حکومت ان گلہ بانوں کو کچھ سہولیات اور بنیادی ضروریات مہیا کرے تو اس سے جانور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا ، نیوزی لینڈ اور برازیل کی مثال ہمارے سامنے ہے یہ اور ان جیسے کئی ایک ممالک سالانہ اربوں ڈالرزجانور پال کر اور بیچ کر کماتے ہیں ۔ پاکستان دنیا کو حلال گوشت برآمد کرکے بھی اچھا خاصا زرمبادلہ کما سکتا ہے مگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہیں ۔ ہمارے آم ضائع ہوجاتے ہیں اور ہم دنیا کو گوشت اور دیگر چیزیں برآمد کرنے میں اس لیے ناکام ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کے سٹینڈرڈ کے مطابق صفائی ، پیکنگ اور ترسیل کا انتظام ہی نہیں ہے اور یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں ۔ ہمارے سوشل میڈیا پر جب کوئی ٹرینڈ چلتا ہے تو پھر ہماری ساری عوام اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس برس قربانی کے حوالے سے بے جا نمود و نمائش کا ٹرینڈ زیادہ زوروشور سے دیکھا گیا ہے ۔ اور اگلے برسوں میں اس میں اضافہ ہوگا ۔ اس لیے حکومت کو اس سلسلے میں قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایسا کرنے پر قانون حرکت میں آتا ہے اور لوگ قانو ن کے خوف سے ایسا کرنے سے باز آجاتے ہیں ۔ مگر اس ملک میں بعض اوقات قانون کی رکھوالے ہی ایسی حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ہم سے پہلے یہ سلسلہ ترکی میں شروع ہوا تھا جس پر وہاں کی حکومت نے کسی حد تک قابو پالیا ہے ۔عربوں میں بے شمار خرابیاں ہمیں نظر آتی ہیں مگر وہ قربانی کے معاملے میں بہت زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی کو بھی اس سلسلے میں نمود و نمائش اور تشہیر کی اجازت نہیں دیتے اس لیے قربانی کی آڑ میں نمود و نمائش کے اس کھیل میں آپ کو عرب ممالک کے لوگ نظر نہیں آئیں گے ۔ پاکستان جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور کل آبادی کا چورانوے فیصد اپنی ضروریات بھی بمشکل پوری کررہے ہیں اس ملک میں حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔سوشل میڈیا کے اس غلط استعمال کو قانون سازی کرکے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور دنیا کی طرح میڈیا پر آئے ہر عمل کو ٹیکس اور قانون کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے ۔ اگر حکومت صرف سو لوگوں کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر ہزاروں ویڈیوز پوسٹ کی ہیں ان کو ٹیکس کے نوٹس بھیجوائے تو اگلے برس کوئی ایسا نہیں کرے گا اس سے قربانی کا تقدس بھی برقرار رہے گا اور لوگ غلط ٹرینڈز کو بھی فالو نہیں کریں گے۔
