بجٹ وعدے ‘دعوے اور توقعات

وفاق کو قرض دینے اور ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کی دعویدار حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں ان دعوئوں کی حقیقت نظر نہیں آئی چونکہ اعلان کے مطابق اس بجٹ کی حتمی منظوری اسیر قائد عمران خان سے لی جانی ہے ایسے میں اگر اڈیالہ سے اس کی منظوری ملتی ہے تو پھر یہ صوبائی حکومت اور اسمبلی کامنظور کردہ بجٹ ہونے کے باوجود ان کی منشاء کا نئے مالی سال کا میزانیہ نہیں بلکہ قائد کی خواہشات کے مطابق مرتب اور ان کا منظور کردہ ہوگاایسے میں اگر بجٹ عوام کے لئے پوری ریلیف لے کر نہ آئی تو اس بار سے بھی صوبائی حکومت بری الذمہ ہوگی یا ثمرات و اختیارات قائد کے حصے اور تنقید وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کے آئے گی اس سے قطع نظر اصولی طور پر بجٹ ایک سنجیدہ معاملہ اور اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہے جس میں مرضی کم اورحکمت عملی کا زیادہ دخل ہوتا ہے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ وسائل آمدن اور اخراجات کا ایک تخمینہ و انتظام ہوتا ہے جس میں سیاسی دخل اندازی اور قائد کی خوشنودی کا تڑکہ لگانے کی گنجائش نہیں ہوتی اس کے باوجود اگر اس کی ضرورت محسوس کی گئی تو پھر اس بجٹ کو عوام کی امنگوں کا مکمل آئینہ دار بنانے کی ضرورت تھی جس میں کامیابی کا حصول اگر سوالیہ نشان رہ جائے تو پھر ساری ڈرامہ بازی ہی اکارت نہیں جانی بلکہ الٹے بانس بریلی کو والا معاملہ ہو گا بنا بریں اب بھی وقت ہے بجٹ کو بجٹ کی طرز پر پیش کرتے وقت جس شرط کا تذکرہ تھا اس سے احتراز کرکے ابتداء کردی گئی ہے مزید بھی صوبائی حکومت کو کسی ایسے اقدام سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو بجٹ کو سیاسی بنا دے اور بلاوجہ تنقید کا باب کھلے بہرحال اسمبلی میں پیش کردہ فنانس بل کے مطابق خیبر پختونخوا میں ڈیجیٹل معیشت، جائیداد، گاڑیوں، خدمات، تعمیرات، سکیورٹی اور دیگر درجنوں شعبوں پر نئے ٹیکس عائد کرتے ہوئے متعدد رعایتیں ختم کردی گئی ہیں۔ ڈیجیٹل اور آئی ٹی خدمات پر بھی ٹیکس تجویز کیا گیا ہے ویب ڈویلپمنٹ، ایپ ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سوشل میڈیا اشتہارات، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تمام آئی ٹی خدمات پر 5فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا شادی ہالز پر ٹیکس عائد کی گئی ہے اس طرح تعمیراتی ا ور کنسٹرکشن خدمات پر بھی ٹیکس کی شرح کا تعین کیا گیا ہے سڑک، پل، ہائیڈرو پاور، پلازہ، مارکیٹ وغیرہ پر 4 تا 5فیصد ٹیکس لاگو ہوگا نجی صحت و تشخیصی ادارے بھی ٹیکس کے دائرے میں لائے گئے ہیں۔ پرائیویٹ لیبارٹریز، ایم آر آئی، سی ٹی سکین ، الٹراسائونڈ پر بھی 5فیصد ٹیکس لگے گا مالیاتی بل کے مطابق فری لانس، مشیر، کنسلٹنٹ اور پیشہ ور افراد پر بھی ٹیکس کا تعین کیا گیا ہے جس کے مطابق ڈاکٹرز، وکلائ، انجینئرز اور مشیروں پر2سے5فیصد ٹیکس ہوگا جبکہ وکیل کی فیس پر500 روپے فی مقدمہ فکسڈ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے سفری سہولیات پر ٹیکس کی شرح کے مطابق بائکی، کریم، اوبر اور ہیلنگ رائڈ پرخدمات پر5فیصد ٹیکس جبکہ بسوں، گاڑیوں، ٹیکسیوں کے ذریعے سفرپر5فیصد اور ریلوے کارگو اور کوریئر سروسز2فیصد ٹیکس لاگو ہوگا فنانس بل میں ایونٹ مینجمنٹ، پراپرٹی ڈیلر، کار ڈیلر، ایڈورٹائزنگ ایجنسی، سکیورٹی ایجنسیز، بزنس کنسلٹنٹ پر 2فیصد سے 10فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز ہے اس تفصیل سے بجٹ کے عوامی اور عوام دشمن ہونے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اس کے باوجود ابہام رہا تو وہ جیسے جیسے اس کی پرتیں کھلیں گی سبھی طشت از بام ہو گا ا ختتام پذیر مالی سال کا بجٹ بھی سرپلس کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا تھا مگرحکومت کو 240 ارب سے زائد کاضمنی بجٹ اور 192 ارب سے زائد کے اخراجات جاریہ کی منظوری لینے کی ضرور ت پڑی اس نظیرکو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ سرپلس بجٹ کے واقعی سرپلس ہونے پر ابھی سے عدم اعتماد کا اظہار خلاف حقیقت نہ ہو گی صوبائی حکومت کی جانب سے آمدن کا جو تخمینہ لگایاگیا ہے اس کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ساتھ ہی ساتھ وفاق سے صوبے کے تعلقات اور ماضی میں وفاق کے عمومی رویئے کے تناظر میں وہاں سے مطلوبہ وسائل کی فراہمی بھی غیریقینی ہے جس کے باعث تیاری اور منظوری کے مراحل ہی میں صوبائی بجٹ غیر متوازن اور غیرحقیقی کے خطرے کی زد میں نظر آتا ہے بجٹ سے جہاں کچھ ٹیکس رعایتیں ہیں وہاں نت نئے ٹیکس بھی لگائے گئے ہیں پبلک ٹرانسپورٹ پربھی ٹیکس لگایا گیا ہے وفاق کے ساتھ ساتھ ان شعبوں میں صوبے کی جانب سے بھی ان کی تقلید میں ٹیکس لگایا گیا ہے خاص طور پرآئی ٹی کے شعبے پرٹیکس علاج معالجہ کی سہولیات پر ٹیکس وکلاء پر ٹیکس ایسے شعبے ہیں جن کا بار عوام ہی پر آئے گاایک خوش آئند امر کم سے کم اجرت میں اضافہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گزشتہ سال کے کم از کم اجرت پر حکومت نے عملدرآمد میں سنجیدگی دکھائی اگر نہیں تو پھر اس تکلف کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ ضم اضلاع کابوجھ اٹھانا وہ مجبوری ہے جو وفاق کا صوبے سے بطور خاص ظلم کے زمرے میں آتا ہے جملہ عوامل کے تناظر میں خوش امیدی کی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ صوبائی حکومت بجٹ تجاویز کو حقیقت پسندانہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مقررہ اہداف کے حصول میں کامیاب ہو کر دکھائے ایسے ہی قیادت سرخرو اور عوام مطمئن ہوگی۔

مزید پڑھیں:  سنگین مسئلہ