اب تو ہم بھی دعائیں لیتے ہیں

یہ تو اچھا ہوا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ یہ ”حادثہ ‘ ‘ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پیش آیا اب خدا جانے اسے ”حادثہ” قرار دیا جاسکتا ہے یا بس اسے معمولی سی ڈگمگاہٹ کہہ کر نظر انداز کیا جائے مگر وہ کیا ہے ناں کہ بات عام آدمی کی ہو تو اسے ”سادھارن” واقعہ سمجھ کر اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ عام آدمی کا کیا ہے وہ اگر پھسل کر چوٹ بھی کھا لے تو کوئی توجہ نہیں دیتا البتہ پرانے دور میں جب ایک بڑھیا سامنے سے آنے والے سائیکل سوار کی معمولی سی غفلت سے ٹکرا کر سڑک پر گر گئی تھی اور لوگ اس کو سنبھالتے ہوئے طرح طرح کے مشورے دے رہے تھے تو بوڑھی اماں کو سب سے اچھا مشورہ وہ لگا جس میں سامنے حلوائی کی دکان سے گرم گرم حلوہ کھلانے کی بات کی گئی تھی تاہم اب دنیا بدل چکی ہے اور اب لوگ ایک پرانے استاد شاعر کے مشہور مصرعے کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہ ”مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی” الٹا اپنے موبائل کیمروں سے اس نوع کے ”حادثات” کی ویڈیو بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہوئے اسے فوری طور پر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں بہرحال بات ہو رہی تھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ” لڑکھڑاہٹ”جب انہیں جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا جس پر ہمیں ڈاکٹر راحت اندوری کا ا یک شعر یاد آگیا کہ
بہکتے رہنے کی عادت ہے میرے قدموں کو
شراب خانے سے نکلوں کہ چائے خانے سے
کالم کے آغاز میں ہم نے ”یہ تو اچھا ہوا” کے الفاظ لکھ کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ”خیر سگالی” کا اظہار کیا تھا کیونکہ اگر موصوف جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے کی بجائے اترتے ہوئے راحت اندوری کے شعر والی کیفیت سے دو چار ہو جاتے تو شاید انہیں اوپر بیان کردہ لطیفے کی اس بڑھیا کی طرح حلوہ کھلانے والے مشورے کی پسندیدگی کا موقع تک نہ ملتا اور پھر ممکن ہے آدھی سے زیادہ دنیا رحمن فارس کے اس شعر کا ورد کرتے دیکھے جاتے
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اب یہ تو نہیں معلوم کہ جب صدر ٹرمپ جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو وہ اس وقت ”پئے” ہوئے تھے ویسے آپ غلط مت سمجھئے گا پئے ہوئے سے ہماری مراد”چائے” سے ہے کیونکہ ”پئے ہوئے” سے جو مطلب خدانخواستہ آپ اخذ کرنا چاہتے ہیں تو وہ تو اہل مغرب کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ‘ ایک بار جب ہم ریڈیو پاکستان کی طرف سے ریڈیو ڈرامے کی اعلیٰ تربیت کے لئے جرمنی گئے تھے تو وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ پینے کے پانی یعنی منرل واٹر کے مقابلے میں”جو” کا پانی سستا تھا اس لئے لوگ منرل واٹر مہنگا خریدنے کی بجائے ”جو” کا پانی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے تھے یعنی پانی کی جگہ بھی جو کے پانی کے ٹن سے ہی پیاس بجھانے کا کام لیتے تھے چونکہ اس میں بس وہ تھوڑی سی مقدار الکوحل کی بھی شامل ہوتی تھی اس لئے ہم مہنگا منرل واٹر ہی خرید لیتے تھے ‘ چونکہ وہ لوگ اس ”خاص پانی” کے عادی ہوتے ہیں اس لئے ہم نے انہیں ”غل غپاڑہ” کرکے کبھی نہیں دیکھا نہ وہ اردو کے ایک استادشاعر کا یہ شعر گنگناتے پائے جاتے تھے کہ
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جوپی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا ‘ چوری تو نہیں کی ہے
ہاں تو صدر ٹرمپ کے حوالے سے ”پئے ہوئے ” والے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تو اس کی بھی وجہ ہے او روہ یہ کہ مغربی دنیا میں چائے سے زیادہ کافی کا استعمال کیا جاتا ہے یہ نہیں کہ وہ چائے پینے سے احتراز کرتے ہیں ‘چائے بھی وہ پیتے ہیں مگر کافی کے مقابلے میں بہت ہی کم ‘ اس لئے جو لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کبھی کبھار چائے سے بھی شغل کر لیتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ دنیا کی بہترین چائے کا انتخاب کرتے ہیں جس کی بھینی بھینی خوشبو اور دلکش ذائقہ ان کے لئے کسی نشے سے کم نہیں ہوتا اسی کیفیت کو ایک شاعر نے کیا خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔
اس نے کہا کہ کونسی خوشبو پسند ہے
میں نے تمہاری چائے کا قصہ سنا دیا
سو ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ جب جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ڈگمگا گئے تھے تو انہوں نے کینیا کے باغات کی اعلیٰ نسل کی ”چائے” پی رکھی ہو اور وہ اس کے ذائقے کے سحر میں گرفتار ہو کر ”ہوش وخرد” بھلا بیٹھے ہوں ‘ یا پھر بنگلہ دیش کے باغات کی چائے سے لطف اٹھاتے اٹھاتے اپنے صدارتی محل سے نکل کر جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش میں”ڈگمگا” گئے ہوں ۔ چائے اگرچہ کئی ملکوں یمں کاشت ہوتی ہے جن میں سے ایک بھارت کی ریاست”دارجینگ” بھی ہے جہاں کی چائے کا ایک زمانے میں ڈنکا بجا کرتا تھا مگر پھر کینیا کے چائے کے باغات سب پر بازی لے گئے اس سلسلے میں ہمارے ہاں بغیر چائے کے باغات کے دنیاکی سب سے سستی مگر ”عجیب و غریب” ذائقے والی چائے بھی کسی زمانے میں تیار ہوتی تھی جس کے بارے میں مرحوم مرزا محمود سرحدی نے تقریباً ساٹھ’ پینسٹھ سال پہلے ہمیں آگاہ کیا تھا یہ کہہ کر کہ
اب تو ہم بھی ہیں صاحب ایجاد
اب تو ہم بھی دعائیں لیتے ہیں
رنگ دے کر چنوں کے چھلکوں کو
چائے کے بھائو بیچ دیتے ہیں
جب تک چائے مہنگی تھی تو ہمارے ہاں اس ”ایجاد” سے بھر پور استفادہ کیا جاتا تھا مگر پھر یہ ہوا کہ چین ہماری مدد کو آگیا یہ سوچ کر کہ ”دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست” اور وہاں سے سستی ترین چائے درآمد ہونے لگی جسے ”کاریگر لوگ” کینیا وغیرہ کی مہنگی چائے کے ساتھ مکس کرکے متوسط طبقے کی ضروریات پوری کرنے لگے ویسے مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اپنی ”ایجاد کردہ چائے” صدر ٹرمپ کو ایک بار پلا دیں تو پھر وہ ہمیشہ اسی کی”ڈیمانڈ” کریں گے کیونکہ اس میں ذائقے کے ساتھ ”توانائی” کا ایک خزانہ بھی ہوتا تھا یعنی یہ جو ہمارے ہاں گھوڑوں کو دیگر خوراک کے ساتھ چنے کے راتب سے مستفید کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ چنے میں بے پناہ قوت کا موجود ہونا ہے اوپر سے ذائقہ بھی منفرد اس لئے تو ہم نے صدر ٹرمپ کے لئے وہی چائے تجویز کی ہے کہ اس کے پینے سے ان پر ڈگمگاہٹ کی کیفیت بھی طاری نہیں ہو گی بلکہ وہ اپنے اندر گھوڑے جیسی”قوت”محسوس کرکے نہایت آسانی سے طیارے کی سیڑھیاں پھلانگ سکیں گے اور ہمیں دعائیں دیں گے بقول محسن بھوپالی
سوچی نہ بری سوچ کبھی ان کے لئے بھی
پیوست مرے دل میں جو تیروں کی طرح تھے
***********