مڈل ایسٹ کے مشرقی خلیجی کنارے آباد ایران اور ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ صحرا دوری پر مغربی سمت بحر روم کے مشرقی ساحل سے لگی یہودی ریاست اسرائیل 13 جون جمعہ کے دن صبح تین بجے سے ایک جدید ترین ٹیکنالوجیکل فوجی تنازع میں اپنے سینگ پھنسا چکے ہیں۔ اس دن کا آغاز اسرائیل کی جانب سے 200 ہوائی جہازوں کے ایک جدید ترین لشکر کے ساتھ ایران کے ایٹمی مراکز، فوجی اہداف اور اہم شخصیات پر حملوں سے ہوا۔ مصدقہ اطلاعات کے باوجود ایران اپنے فوری دفاع کے لیے کچھ نہ کر سکا اور اسرائیل کے جنگی جہاز سرعت اور کامیابی کے ساتھ ایران کے اندر 100کے قریب اہداف کو نشانہ بنا کر واپس چلے گئے۔ اس آپریشن کو اسرائیل نے” آپریشن رائزنگ لائن”یا”ابھرتا ہوا شیر”کا نام دیا ہے۔ جبکہ ایران نے اس فوجی کارروائی کو ایک جنگ سے تعبیر کیا ہے اور اس کے جواب میں شروع کی جانے والی اسرائیل مخالف جوابی فوجی کاروائی کو”آپریشن وعدہ صادق سوئم”کا نام دیا ہے۔ اس اسرائیلی فوجی ایکشن میں ہلاک ہونے والوں میں ایران کے20سے زیادہ سینئر فوجی افسران اور چھ ایٹمی سائنسدان بھی شامل ہیں جو درحقیقت پورے سسٹم کو چلا رہے تھے۔ایرانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے اس کی ایٹمی تنصیبات واقع ناتانز جنوب مشرقی تہران میں جہاں یورینیم کی افزودگی کا پلانٹ ہے، اصفہان کا نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر جو کہ مرکزی ایران میں ہے جہاں مٹیلک یورینیم سے افزودہ یورینیم تیار کیا جاتا ہے اور فوروو کے فیول انریچمنٹ پلانٹ پر حملہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر میزائل ورڈرون فیکٹریز اور تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو تہران ،کرمان شاہ صوبہ ،مشرقی آذربائجان صوبہ ، مغربی آذربائجان صوبہ، ایلام شہر وغیرہ میں واقع ہیں۔ اچانک فضائی حملوں میں مارے جانے والوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد بغیری، کچھ اور سینئر فوجی افسران کے علاوہ چھ ایٹمی سائنسدان بھی مارے گئے ہیں۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر متوقع اسرائیلی حملے کی اطلاعات کئی ماہ سے بین الاقوامی و علاقائی میڈیا میں زیر بحث تھیں۔ لیکن اس سال مارچ کے آخری ہفتے میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کو بذریعہ خط واضح کر دیا گیا تھا کہ ایران اپنے ایٹمی و میزائل پروگرام کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آجائے ورنہ دو ماہ کے اندر امریکہ اور اسرائیل ایران پر حملہ کر دیں گے۔ ایرانی حکام نے سفارتی لحاظ سے اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو محفوظ بنانے کے لیے اس دھمکی کو مذاکرات کی میز پر لا کر غیر موثر کر دیا ۔12 اپریل سے23مئی تک ہونے والے اعلی سطحی ایران امریکہ مذاکرات کا موضوع ایران کی یورنیم افزودگی کی صلاحیت تھی جو کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے بہت قریب تھی۔ امریکی ایران کو یورنیم افزودگی سے مکمل طور پر پاک دیکھنا چاہتے تھے لیکن چھٹے مذاکراتی دور سے کچھ دن قبل ایران کے سپریم لیڈر نے یہ بیان دے دیا کہ یورینیم کو افزود کرنا ایران کا حق ہے اور وہ اس سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔ مذاکرات کا چھٹا دور 15جون بروز اتوار ہونا تھا اس دوران ایران کے خلاف اسرائیل کے حملے کی اطلاعات مذاکرات کے شور کی وجہ سے کوئی زیادہ اہمیت اختیار نہ کر سکیں لیکن اسی دوران باوجود ان اطلاعات کے امریکی صدر ٹرمپ ایران سے ہر صورت مذاکرات کے حامی تھے۔ بالکل اچانک12جون کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کو ایک سخت تنبیہ کی گئی کہ بہت کچھ ہونے والا ہے اور ایران مذاکرات کو صحیح سمت میں لے جائے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ نے بھی 12جون کو نہایت سخت بیان جاری کیا کہ ایران یورینیم افزودگی کو ایٹم بم بنانے کے معیار کے قریب لانے کو ہے اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے ایران میں فوجی کارروائی شروع کر دی۔ ان تمام مرحلوں میں امریکی صدر ٹرمپ کا رویہ کبھی اسرائیل کے خلاف گیا اور کبھی غیر جانبدار رہا۔ اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بعد انہوں نے اس کارروائی کو نہایت مناسب قرار دیا اور ایرانی قیادت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ امریکہ اور طاقتور یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی اسرائیل کو مکمل طور پر سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ معاملہ سیکورٹی کونسل میں بھی ہے جہاں ایران کو سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران روس اور چین کے علاوہ غیر مستقل ممبر پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ جبکہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں ۔ ہندوستان کا ابھی تک کوئی سرکاری بیان اس مسئلے پر نہیں آیا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق ایران ایٹمی قوت یا اس کے ایٹمی ڈھانچے کو حالیہ اسرائیلی ایئر سٹرائیکس میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی بلاسٹک میزائلز اور ڈرونز کی صنعت کام کر رہی ہے 20 فوجی افسران بشمول اس ایران کے مسلح افواج کے سربراہ کی شہادت کے باوجود ایران کی مسلح افواج ایران قیادت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ایران میں عوامی طاقت کا مظاہرہ اسرائیل کے خلاف ہو رہا ہے۔ اس طرح اب تک اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے دوسری جانب ایران کو کس حد تک اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی ہے مثال کے طور پر مذاکرات فی الحال معطل ہیں ایران اگر چاہے تو وہ یورینیم کو ایٹمی سطح تک افزود کر سکتا ہے ۔ یہ بات بھی بالکل واضح نظر آرہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر یہ تنازعہ کنٹرول نہیں ہوا تو اس علاقے میں کسی وقت بھی ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو جائے گا ۔ امریکی صدر ٹرمپ فی الحال اسرائیلی ایکشن کو معطل شدہ امریکہ ایران مذاکرات میں ایک دبا ئو ڈالنے والے عنصر کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کی جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ایران مذاکرات کی میز پر آ جائے ۔ لیکن ایرانی حکومت کی جانب سے اب تک کسی کمزوری کا اظہار نہیں کیا گیا ہے دوسری جانب ایران کے پاس کئی ایک آپشنز موجود ہیں جو اس کو ایک طاقتور فریق کے طور پر سامنے لاتے ہیں مثال کے طور پر اگر یہ تنازعہ زیادہ بڑھتا ہے تو خدشہ یہ ہے کہ ایران مڈل ایسٹ میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ نہ بنا دے ، کہیں آبنائے ہرمز کو ایران بند نہ کر دے ایسی صورت میں چین جو سب سے بڑا ایران کے تیل کا خریدار ہے اور دیگر ممالک جو مختلف عربی بولنے والی چھوٹی بڑی ریاستوں سے تیل خریدتے ہیں ، وہ سب اس تنازعے کا حصہ بن جائیں گی۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ ایران این۔ پی۔ ٹی یا نیوکلیئر نان پرولیفیشن ٹریٹی کا حصہ ہے اور اس معاہدے کے ہوتے ہوئے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو پرامن رکھنے کا پابند ہے اگر ایران کے ایٹمی پروگرام کو اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے دبائو ڈال کر بند کرانے کی کوشش کی گئی تو خطرہ یہ ہے کہ ایران این پی ٹی سے نکل نہ جائے جس کے بعد ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے آزاد ہوگا۔ چوتھا آپشن یہ بھی ہے کہ ایران کی سپریم لیڈرشپ اور مذہبی قیادت ایران کے رہبر انقلاب آیت اللہ خمینی کے اس فتوے کا دوبارہ جائزہ لے جس میں ایران کو ایٹمی قوت بننے کی ممانعت کی گئی ہے اور اجازت دے دے تو پھر ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا ایک مشکل عمل ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں اس تنازعہ کی فوجی اور سیاسی شکل آنے والے دنوں میں کیا ہوتی ہے؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ایرانی قیادت ہر صورت مزید لڑائی اور فوجی کاروائیوں سے اپنے آپ کو بچائے گی اور اسرائیل کو سیاسی طور پر لگام دینے کی کوشش کرے گی۔ اسرائیل کے اندر بھی اس وقت نیتن یاہو کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی ابھرتی ہوئی قوت کا سامنا ہے اور اسرائیلی مغویوں کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے اگر ایرانی بلاسٹک میزائلز کامیابی کے ساتھ اسرائیلی شہروں کو نشانہ بناتے ہیں تو یقینی طور پر اسرائیل میں بھی ایک جنگ گریز رویہ مکمل طور پر سامنے آجائیگا اور یہ فوجی تصادم جو اسرائیل اور ایران کے مابین جاری ہے شاید بہت زیادہ دن جاری نہ رہ سکے۔
