ٹریفک مسائل سلجھائیں

صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک عرصے سے ٹریفک مسائل جس طرح روز بروز الجھتے جا رہے ہیں ان کو درست کرنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ان پر بھرپور توجہ دینے کی بجائے ان سے صرف نظر کرنے کی پالیسیوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی گئی۔ اس صورتحال کی ذمہ داری کسی ایک صوبائی حکومت پر عاید کرنا بھی یقینا ناانصافی ہوگی، کیونکہ ان کی وجوہات ایک ،دو نہیں کئی ہیں، پشاور میں اس بے قاعدگی کی ابتداء ایم ایم اے اور پھر اے این پی دور سے ہوئی جب جی ٹی روڈ پر ٹریفک کو درست خطوط پر ڈالنے کی بجائے پہلے رنگ روڈکے منصوبے کو بھرپور توجہ دینے کی بجائے شہر کے اندر دو رویہ سڑک کو تنگ کرنے اور فلائی اوورز کا نظام لایا گیا ،اس کیساتھ ساتھ کھٹارہ بسوں اور ویگنوں کو سرکلر روڈ اور رنگ روڈ پر ڈالنے کی بجائے دیگر اضلاع کے ہزارہا رکشوں کو پشاور کی سڑکوں پر ” حملہ آور ” ہونے کی سہولتیں دی گئیں، گدھا گاڑیوں کی بھی برمار روا رکھی گئی، ہتھ ریڑھیوں کے تو قافلوں کے قافلے چاروں جانب پرمٹ اور بغیر پرمٹ ( گنجائش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے) دندناتے رہے ،رہی سہی کسرقسطوں کے ذریعے بینکوں کی مدد سے گاڑیوں کے فلیٹ شہر پر” حملہ آور ” ہونے شروع ہوئے،مستزاد ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں بھی آسان قسطوں پر سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ تک کھائے چلی گئیں اور اب نہ صرف فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی،تہہ بازاریوں نے ٹریفک اہلکاروں اور دکانداروں کیساتھ ملی بھگت سے یہ سہولت بھی عوام سے چھین لی ہے ،اب سرکار کو ٹریفک ہاٹ سپاٹس پر انڈر پاسز اور نئے لنک روڈز بنانے کی جانب متوجہ کر دیا ہے، اور اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس مقصد کیلئے بھاری فنڈز مختص کرنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو یقینا یہ خوش آیند کے زمرے میں شمار ہونیوالی خبریں قرار دی جا سکتی ہیں، تاہم اگر ان کا مقصد بی آر ٹی جیسے منصوبے کی طرح مبینہ طور پر بعض متعلقہ حلقوں کی ” پذیرائی” ہو اور فنڈز کی مبینہ طور پر خرد برد کی سکیمیں بنانا یا اپنا حصہ وصول کر کے غیر معیاری تعمیرات کرنا ہے تو عوام اس کے نتائج جلد بھگتنے پر مجبور ہوں گے اور عوام کو ان منصوبوں کے معیار پر کڑی نظر رکھنی پڑے گی تاکہ ان کے ٹیکسوں کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  بارشوں اور موسمی تغیرات کا چیلنج