سطحی جذباتیت اوردھمکیاں؟

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر بانی اور پیٹرن انچیف تحریک انصاف کو رہائی دلانے کیلئے پارٹی کارکنوں کو سطحی جذباتیت میں مبتلا کرنے کی راہ اختیار کرتے ہوئے 22 جون کو ملک بھر میں احتجاج اور پاکستان کی ہر تحصیل اور حلقوں میں بھرپور مظاہروں کا اعلان کیا ہے اور عوام اور کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ اس دن ہر شخص احتجاج کیلئے گھر سے نکلے ،گزشتہ روز پشاور کے نواحی علاقے متھرا میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دھمکی دی کہ اس بار ہم ہتھیاروں کیساتھ اڈیالہ جیل جائیں گے، اور مزاحمت کریں گے، پرامن نہیں رہیں گے، امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے بانی اور پیٹرن انچیف جب سے عدالتوں سے مختلف مقدمات میں جرم ثابت ہونے کے بعد قید ہوئے ہیں اس سے پہلے ان مقدمات کی سماعت کے دوران بھی انہیں قید و بند میں رکھتے ہوئے ان سے تفتیش کے مراحل کئے جاتے رہے ،اس تمام عرصے میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا ،مگر قانون کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ،اس لئے بار بار احتجاج کرنے اور خصوصاً خیبر پختونخوا سے جہاں گزشتہ 10 برس سے تحریک انصاف ہی برسر اقتدار ہے( ما سوائے ان چند مہینوں کے جن میں نگران حکومتوں نے اگلے انتخابات کی ذمہ داری سنبھالے رکھی )، اور یوں صوبے کے سیاح و سفید پر قابض رہتے یعنی حکومت کرتے ہوئے پارٹی کے بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے وہ کون سا حربہ ہے جو پارٹی نے آزمایا نہ ہو، یہاں تک کہ ماضی کی بعض اعلیٰ عدالتوں نے بھی مبینہ طور پر بانی اور ان کی اہلیہ کو لامتناہی سہولتوں سے نواز کر آسانیاں فراہم کی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اگر قانون نے اپنا راستہ اختیار کر کے بعض مقدمات میں انہیں سزا سنائی ہے تو جب تک قانونی تقاضوں کے تحت ان سزاؤں کیخلاف قانون ہی کا راستہ اپناتے ہوئے ان کو غلط ثابت نہ کر دیا جائے تب تک بانی تحریک کو رہائی ملنے کی توقع عبث اور امید لاحاصل ہی ٹھہرے گی، اس لئے صرف دھمکیوں سے انہیں رہائی دلانے کی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ،اور یہ دھمکیاں نہ ان کے کسی کام کی ہیں نہ ہی ان سے بانی تحریک انصاف کو کوئی فائدہ مل سکتا ہے، ماضی میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایک سے زیادہ بار صوبے کے وسائل اور بعض اہم اداروں کے ملازمین کے علاوہ سول سرونٹس کو بھی اس قسم کی احتجاجی سرگرمیوں میں جھونکنے کی کوشش کی ،مگر اس کے نتائج عوام کے سامنے ہیں ،اب ایک بار پھر موصوف نے تازہ دھمکی میں سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، جن سے ملک میں انارکی پھیلنے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ ماضی میں جب وفاق میں بھی تحریک انصاف برسر اقتدار تھی تو اپنے سیاسی مخالفین کیساتھ جو رویہ انہوں نے اختیار کیا تھا یہاں تک کہ بطور وزیراعظم عمران خان اندرون ملک تو چھوڑ غیر ملکی دوروں کے دوران بھی مخالف سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے جس قسم کی بیان بازی کرتے ہوئے وہ انہیں دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور مبینہ طور پر مخالف سیاسی رہنماؤں کیساتھ جو رویہ ان کی حکومت نے اختیار کر رکھا تھا، ان کی تفصیل میں جا کر ہم تب حکومتی ناروا سلوک پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ عمران دور حکومت کے ایک وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان کے تازہ ترین بیان کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ” دودھ کے دھلے نہیں، ہمارے دور میں بھی غلط چیزیں ہوئیں” ،علی محمد خان کے اس اعتراف کے بعد ہمارا خیال ہے کہ وفاق کو دھمکیاں دینے اور اب کی بار” اسلحہ ساتھ لے کر آنے ، گولی کا جواب گولی سے دینے ” جیسے الفاظ سے صورتحال کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟، اس وقت جبکہ ہمارا ازلی دشمن بھارت عالمی سازشوں کے تانے بانے بن کر ہمارے خلاف صف ا راء ہے ،اور ابھی ہم اس کیساتھ حالت جنگ میں ہیں ،ایسے موقع پر ملک کے اندر ایک سیاسی جماعت کے ” سزا یافتہ” رہنماء کو بغیر قانونی تقاضے پورے کرنے اور عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ کر صرف دھمکیوں کے ذریعے رہائی دلانے کی سوچ کسی بھی طور ملک کے مفاد میں ہے نہ مستقبل میں اس سے کسی بھی سیاسی لیڈر کو ” من مانی کرنے ” اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے سے روکا نہیں جا سکے گا، جس سے ایک ایسی قانونی انارکی جنم لے گی جو ملک کے وجود کیلئے فائدہ مند نہیں رہ سکے گی، ہماری دانست میں بہتر یہی ہے کہ بانی تحریک کی رہائی کیلئے عدالتوں کے اندر مناسب طور پر قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں باعزت رہائی دلوانے کی کوششیں کی جائیں ،کیونکہ اگر جیسا کہ تازہ دھمکیاں دی گئی ہیں ان پر عمل کیا گیا تو حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کسی بھی ” طاقت ” کا مظاہرہ جوابی رد عمل کے تقاضوں کے پیش نظر افرا تفری، دھینگا مشتی اور فساد میں اضافہ ہوگا ،اور پھر یہ سلسلہ ایک نہ رکنے والی کیفیت میں ڈھل کر آنیوالی حکومتوں کیلئے بھی چیلنج بنتا رہے گا، اس لئے ہوش کی بجائے جوش سے کام لینے کی سوچ ترک کر کے قانون کا راستہ اختیار کیا جائے ،کارکنوں کو تیش دلانا تو آسان ہے، مگر اس کے نتائج خطرناک بھی ہو سکتے ہیں ،اس لئے ہم تمام فریقوں سے گزارش کریں گے کہ وہ سطحی جذباتیت کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں سیاسی ہم آہنگی کو فروغ دینے پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  بے وجہ نہیں پڑتی رشتوں میں دراڑ