نیویارک ائر پورٹ پر غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونیوالے ایک بھارتی شہری کی وڈیو نے بھارتیوں کی عزت اور انا کو زخمی کر دیا ہے۔عدالت کے فیصلے کے بعد بھارتی شہری کو یوں ڈیپورٹ کیا جا رہا ہے کہ نیویارک ائرپورٹ پر خطرناک مجرموں کے انداز میں اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں اور اسے زمین پر لٹادیا گیا ہے۔یہ شخص بے بسی اور دل شکستگی محسوس کر رہا ہے اورحقیقت میں یہ دل شکستگی بھارت کی ریاست اور نظام کیلئے ایک پیغام رکھتی ہے جو خودکو دنیا کی ممتاز اور نمایاں تہذیبوں اور معیشتوں میں شمار کرنے لگا ہے۔ سوشل میڈیا پروائرل ہونیوالی اس تصویر سے بھارت میں ایک بھونچال سا آگیا اور مودی کی پالیسیوں پر اپوزیشن کی تنقید کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کہا گیا کہ نیویارک میں بھارت کاقونصل خانہ امریکی حکام سے رابطہ رکھے ہوئے ہے۔فرش پر گرے ہوئے بھارتی شہری کے اس انداز میں بھارت کیلئے جو پیغام مستور تھا وہ بھارتیوں تک اچھی طرح پہنچ گیا ہے۔نائن الیون کے بعد ایسے مناظر صرف پاکستانیوں کیلئے مختص ہو ا کر تے تھے اور ظاہر ہے کہ اس وقت مغرب کے خیال میں پاکستان ان کیساتھ ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ابھی اس تصویر کے آفٹر شاکس جاری ہی تھے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس کی پریس کانفرنس میںایک بھارتی صحافی ان بار بار ایک ہی سوال پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ٹیمی بروس اس سوال کا جواب دینے سے گریز کر رہی تھیں جب بھارتی صحافی کا اصرار بڑھ گیا تو ٹیمی بروس نے درشت لہجے میں کہا آپ چپ نہ ہوئے تو باہر نکال دئیے جائو گے۔یہ اور اس نوعیت کے معمولی قسم کے واقعات گزشتہ دودہائیوں میں امریکہ اور بھارت کے تعلق کے تناظر میں قطعی عجیب اور مختلف ہیں۔ایسے واقعات میں جھڑکنے اور جھٹکنے کا انداز نمایاں اور بہت واضح ہورہا ہے اور امریکہ ان واقعات کی ذریعے اپنے سے دوری اختیار کرنیوالوں کی رسی کھینچتا ہے۔پاکستان اور امریکہ کا دوعشروں کا تعلق ایسے لاتعداد واقعات سے بھرا پڑا ہے۔یوں بھارت اورامریکہ کے درمیان رشتوں کے تالاب میں ایک ارتعاش سا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ترک تعلقات کی حقیقی کہانی سے زیادہ شکر رنجی ہے۔دوستوں میں پیدا ہو نیوالی بدگمانی اور عارضی رنجش ہے جس کا تعلق نریندرمودی کے اس حرف ِانکار سے ہے جو انہوں نے سفید فاموں کی مقدس جنگ قرار پانے والی یوکرین کی لڑائی میں عملی شرکت کے حوالے سے کیا تھا۔اس لڑائی کومقدس لڑائی کانام روسی حملے کے وقت برطانوی وزیر خارجہ نے دیا تھا اور انہوںنے اس کیلئے دنیا بھر سے رضاکار بھرتی کرنے کا اعلان تھا۔جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کیساتھ امریکہ کے تعلقات میں اچانک ایک سو اسی زاویے کی تبدیلی آگئی ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے بھارت امریکہ کا لاڈلہ اور ان کی آنکھ کا تارہ تھا۔دنیا میں صرف دو ہی ممالک امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر کے حقدار قرارپائے ان میں اسرائیل کیساتھ ساتھ پہلی بار بھارت بھی شامل ہوگیا۔پاکستان نے لاکھ کوشش کی کہ امریکہ اسے سٹریٹجک پارٹنر کا مستحق جانے یا زبان سے اسے محض شراکت دار ہی قرار دے مگر امریکہ نے اس خواہش کو جھٹک دیا۔پاکستان نے یہ کوشش بھی کی امریکہ اسے بھارت چین اور افغانستان کی عینک سے دیکھنے کی بجائے پاکستان کی اپنی تزویراتی ،جغرافیائی اور معدنی عینک سے دیکھے مگر امریکہ نے اس خواہش کو کبھی پزیرائی نہیں بخشی۔ایک وقت ایسا آیا جب بھارت کا تکبر اس قدر بڑھ گیا کہ اس نے امریکہ سے فرمائش کی کہ اب انڈوپاک کی اصطلاح کے ذریعے بھارت کا نام پاکستان کیساتھ نہ لیا جائے تو امریکہ نے پاکستان کا نام بھارت کیساتھ نہ لئے جانے کا سامان افغانستان کیساتھ لینے کا سامان کیا اور افپاک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔تب مغرب کو بھارت کے مجروح چہرے میں اپنا چہرہ نظر آرہا تھا۔انہیں بھارت کا ہر دکھ اپنا محسوس ہو رہا تھا اور بھارت کا ہر دشمن اپنا دشمن دکھائی دے رہا تھا۔اس یارانے کو عملی طور پر پرکھنے کا موقع آنا ابھی بہت دور تھا۔امریکہ اور مغرب بھارت کے غبارے میں چین کے مقابلے کیلئے ہوا بھر رہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ جب چین کو جنوبی چین کے جزائر یا شمالی سمت سے سی پیک وغیرہ کی طرف گھیرنے کی ضرورت پیش آئیگی تو بھارت اس ضرورت کی تکمیل کا قائد اور سفر کامیرِکارواں ہوگا۔یہ تو صدر پیوٹن نے یوکرین پر چڑھائی کر دی کہ چین سے پہلے ہی مغرب کی پنجہ آزمائی روس سے ہونے لگی اور یوں چین اور مغرب کا تصادم کچھ دور چلا گیا۔یہاں امریکہ اور مغرب نے ایک بار پھر دنیا کے ممالک کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنا ہمنوا بنانے کیلئے نائن الیون کی طرح کا اوبجیکٹیو ٹائپ سوال پوچھنا شروع کیا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا روس کیساتھ؟۔جس نے اس سوال کا مغرب کی سوچ وفکر سے ہٹ کر جواب دیا حالات کی بے رحم موجوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔نریندرمودی بھی اس مرحلے یر یہ جان کر غیر جانبداری کا سا انداز اپنایا کہ روس اور بھارت کے تعلقات تاریخ میں بہت گہرے ہیں۔بھارت سرد جنگ کے پورے عرصے میں غیر جانبدار تحریک کے نام پر حقیقت میں سوویت یونین کا ہی مددگار رہا تھا۔مودی یہ بات فراموش کر گئے کہ ان کی ذات ،مذہب یا کسی خوبی کی وجہ سے مغرب اس پر مہربان نہیں رہا بلکہ یہ مہربانی مشکل اور ضرورت کے وقت میں کام آنے سے مشروط ہے۔یوکرین کی جنگ میں” اگر مگر” کیساتھ نریندرمودی کے فاصلہ اپنانے کی روش نے مغرب پر یہ بات ثابت کر دی کہ وہ جس بھارت پر اور جس امید پر بھروسے ،اعتماد، امکانات کی سرمایہ کاری کئے جارہے ہیں وہ تو مشکل وقت میں نظریں پھیرسکتا ہے۔جو بھارت روس کیخلاف اپنا کندھا پیش نہیں کر سکتا وہ چین کیخلاف حسب ِضرورت کیا کام آئیگا؟۔یہاں سے بھارت اور مغرب کے درمیان شکر رنجی کا آغاز ہوا۔نریندر مودی کے کچھ حامی سمجھتے ہیں کہ بھارت کے انتخابات میں نریندرمودی” رجیم چینج”کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ان انتخابات میں مغربی ابلاغی اداروں کا رجحان راہول گاندھی کی طرف صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا مگر ایک بڑی شرط جیتنے کیلئے کانگریس ایک کمزور گھوڑا ثابت ہوئی اور ساتھ ساتھ ہی نریندرمودی دو تہائی اکثریت کے خوابوں اور سحر سے نکل کر عملی طور پر دو اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر آگئے۔مغرب اور بھارت کے تعلقات میں یہ ارتعاش ایک عارضی کیفیت ہے۔ماضی میں بھی دونوں کے تعلقات کی کشتی اس وقت تک خوب ہچکولے کھاتی رہی جب تک بھارت نے اپنی منڈیاں امریکہ کیلئے کھولی نہ تھیں۔امریکہ کی کشمیرپر دلچسپی ہمہ پہلو تھی۔خالصتان میں بھی ان کی دلچسپی مستور اور ملفوف انداز میں جاری تھی۔اس کے علاوہ بھارت کے کمزور مقامات اور کمزور لمحات پر مغربی ممالک چوٹ لگانے سے نہیں چوکتے تھے۔ گزشتہ دہائیوں میں فرینک وزنر ،رابرٹ اوکلی ،سٹیفن سولارز،مسز رابن رافیل ،میڈلین البرائٹ اور نجانے سفارت کاری اور قانون سازی کی دنیا کے لاتعداد امریکی ماہرین کشمیر سمیت جنوبی ایشیا کے کئی معاملات میں بھارت کی کلائی مروڑتے ہوئے نظر آتے ہیںمگر یہ معاملہ اس وقت اْلٹ گیا جب بھارت نے امریکہ کیلئے اپنی منڈیاں کھول دیں اور پھر نوبل پیس پرائز اور مس ورلڈ کے انعامات اور اکرامات اچانک بھارت پر برسنے لگے۔یوں لگ رہا تھا کہ مغرب کے کولمبس کو امریکہ کی طرح ایک اور دنیا مل گئی ہو۔نوبل پیس پرائز اور مس ورلڈ کی برسات سے بھارت کا ایک نیا نیک نامی اچھی شہرت پر مبنی امیج اْبھارنا مقصود تھا۔بھارت نے اس پالیسی سے جم کر فائدہ اْٹھایا اور آج بھارت کے شہری کو ہتھکڑی پہنا کر زمین پر لٹانے میں اپنی ہی بنائے ہوئے بھارتی امیج پر بدنامی کی ہلکی سی لکیریں پھیرنا ہے۔چونکہ حقیقت میں نہ ضرورتیں بدلی ہیں اور نہ سوچ کے انداز اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے خود تراشیدہ سائے تو ایسے میں یہ بدلی ہوئی پوزیشنیں عارضی ہیں۔جونہی بھارت نے” ہاں” کر دی پرانا منظر بحال ہونے میں لمحوں کی تاخیر نہیں ہوگی۔
