39اراکین کی حد تک غلطی

مخصوص نشستیں: الیکشن کمیشن نے 39اراکین کی حد تک غلطی کی، جسٹس جمال مندوخیل

ویب ڈیسک: مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے 41میں سے 39اراکین کی حد تک غلطی کی ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کے خلاف دائر نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی، سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ نے کی۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل دیے، سماعت کے آغاز پر فیصل صدیقی نے جسٹس امین الدین کو حج کی مبارکباد دی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی ایک آبزرویشن کے بعد فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالت کے 100 صفحات پر مشتمل فیصلے کی 13 صفحات پر سمری تیار کی گئی ہے۔
جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہااگر آپ نے میرے کمنٹ دل پر لیے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔
فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ میری بیوی نے بھی سن لیا تھا، اس نے ڈانٹا کہ کیا کررہے ہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے تبصرہ کیا،تو پھر آپ نے جسٹس کاکڑ کی بات تو نہ مانی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ہمارا اور پی ٹی آئی کا مفاد ایک تھا اس لیے نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے پر اعتراض نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب آپ کا اور پی ٹی آئی کا آئین اور پارٹی کا ڈھانچہ مختلف ہے تو مفاد ایک کیسے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں میں ایک ہی تھا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا کہ حالات ایسے تھے کہ ممبران کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کسی امیدوار نے خود ان حالات کا تذکرہ کیا جس کی وجہ سے انہیں سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا کسی امیدوار نے کہا کہ میں مجبور تھا کوئی بہانہ تو بنایا ہو گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ یہ نکتہ اہم نہیں کہ کسی فریق نے خود عدالت سے رجوع کیا یا نہیں، اس کیس میں بہت بنیادی سا نکتہ ہے اور یہ میں بنچ کے نئے ممبران کی وجہ سے بتا رہا ہوں، مخصوص نشستیں ممبران کے تناسب سے مل جاتی ہیں پر آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے تنازع بنا، پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے مکمل انصاف کا تقاضا کیا، ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا آزاد امیدواروں کے حصے کی نشستوں کو تین جماعتوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت انتخابات لڑے یا نہیں، بنچ کی توجہ اس نکتے پر لے جانا چاہتا ہوں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ تو عدالت کے سامنے سوال ہی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن میں حصہ لیا یا نہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو طے کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ 13 جنوری کو آیا کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت دکھائی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بنچ کا سوال تو یہ ہے انتخابی نشان لے کر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لے لیا تھا، اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کا تنازع تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کر لیا۔
فیصل صدیقی نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل کا حق دعوی مسئلہ نہیں ہے، میں سنی اتحاد کونسل نہ پی ٹی آئی کا حامی ہوں بلکہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہا ہوں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ جو ناانصافی سپریم کورٹ نے پہلے کی اس کا مداوا مخصوص نشستوں کے فیصلے نے کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد ڈکلئیر نہیں کر سکتا، انہوں نے استفسار کیا کہ جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے ہے کہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب جسٹس امین اور جسٹس جمال کے ایک فیصلے میں ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم نے یہ تصور کیا کہ تحریک انصاف کے 39 امیدوران نے جوائن ہی نہیں کیا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹائم لائن تو آپ نے بھی تبدیل کی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون سی ٹائم لائن تبدیل ہوئی ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کے حوالے سے ٹائم لائن میں تبدیل ہونی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپنے فیصلے میں اگر کچھ غلطی کر گیا ہوں تو میں اپنی کوریکشن کیلئے تیار ہوں، فیصل صدیقی نے کہاکہ ہم تو آپکی ججمنٹ کو ڈیفینڈ کریں گے آپ جو بھی کہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 41 اراکین کو کسی پارٹی کا امیدوار ڈیکلئیر نہیں کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان 41 میں سے صرف 39 کی حد تک غلطی کی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریت نے تسلیم کیا کہ 39 امیدواران کی حد تک بھی غلطی ہوئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمے کا فیصلہ اپنے حالات و واقعات پر ہوتا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 254 اسے پروٹیکٹ کرتا ہے جس کو غلط طور پر جوائن کرنے کے لیے کہا گیا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے تصور کیا کہ ان 39 ارکان نے کسی کو جوائن نہیں کیا، باقی کو آزاد کریں یا نہ کریں۔
بعد ازاں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھیں:  رستم بازار وانا میں تاجر برادری کا انگوراڈہ گیٹ کھولنے کا مطالبہ