دنیا کا موجودہ حکومتی نظام ٹیکسوں کی بنیاد پر چلتا ہے یعنی ملک میں جو بھی بندہ یا ادارہ کمائے گا اس کا ایک خاص حصہ واپس حکومت کو دے گا جس سے حکومت انتظام و انصرام چلائے گی ۔ پاکستان میں ٹیکس دینے کا رواج دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح عام نہیں ہے ۔ اس ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے یا پھر حکومت بجلی ، تیل ،گیس اور ٹول کی مد میں جمع کرتی ہے ۔ دنیا میں جن سے ٹیکس لیا جاتا ہے ان سے پاکستان میں اس طرح ٹیکس نہیں لیا جاتا بلکہ ایسے قوانین اور پالیسیاں بنائی گئی ہیں کہ ان سے ٹیکس لینے کی جگہ عام انسانوں سے لیا گیا ٹیکس بھی ان کو بہانوں بہانوں سے دیا جاتا ہے ۔ اس سال بجٹ میں بے شمار اداروں کو ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہے ۔ ایک ہی سیکٹر کو لے لیتے ہیں یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں کو جو کھربوں روپے کا منافع کماتے ہیں ۔ان ہسپتالوں تک کسی عام پاکستانی یا غریب کی رسائی ممکن نہیں ہے اور یہ ایک کمرے کے ہزاروں اور سہولیات و سروسز کے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں ۔چونکہ کمرشل بنیادوں پر کام کرتے ہیں اس لیے ان سے کمرشل بنیادوں پر ٹیکس لینا چاہیے مگر اس ملک میں جو یہ کمرشل ہسپتال چلا رہے ہیں وہ بہت ہی بااثر لوگ ہیں ۔جن کا واسطہ ان ہسپتالوں سے پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کو کس کس طرح لوٹا گیا ہے ۔ اس ملک میں تنخواہ دار طبقے پر جو ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ دنیا میں کہیں اور نہیں لگائے گئے اس لیے کہ تنخواہ دار اپنی تنخواہ سے ٹیکس دے کر اس کے بعد باقی ماندہ پیسوں سے بھی ہر قدم پر ٹیکس بھرتا جاتا ہے ، چاہے بجلی ، ٹیلی فون ، گیس کا بل ہو ، کسی ریسٹورنٹ میں کھانا ہو، کسی دکان سے کوئی شے خریدنی ہو، کسی سڑک پر سفر کرنا ہو، کوئی گاڑی خریدنی ہو ، کوئی جائیداد خریدنی ہوغرض و ہ ہر جگہ ٹیکس دیتا جاتا ہے اور یوں وہ اپنی تنخواہ کا نصف سے زیادہ حصہ ٹیکسوں کی شکل میں واپس لوٹا دیتا ہے مگر اس کے مقابلے میں جو لوگ روزانہ کے حساب سے لاکھوں کماتے ہیں وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے اور جو کروڑوں اور اربوں کماتے ہیں وہ الٹا حکومت سے مراعات اور سبسڈی لیتے ہیں ۔ کراچی ، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے پرائیویٹ ہسپتال جو بااثر لوگوں کے ہیں وہ روزانہ کے حساب سے مریضوں سے کروڑوں روپے کماتے ہیں مگر حکومت ان کو ٹیکس میں چھوٹ دے رہی ہے ۔ اس ملک میں ایک بڑا فراڈ یہ بااثر افراد اس طرح کرتے ہیں کہ ہر برس کروڑوں روپے فلاحی کاموں کے نام پر کاغذوں میں خرچ کرکے ٹیکس بچاتے ہیں ۔ وہ ملک جو قرض لے کر چلایا جارہا ہے اس میں اس طرح کے کام ہورہے ہیں ۔اس ملک میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ جب تک ختم نہیں کی جاتی یہ ملک بیرونی قرضوں پر ہی چلے گا ۔ یہاں بڑے بڑے کاروباری ٹیکس نہیں دیتے ،بڑے بڑے زمیندار ٹیکس نہیں دیتے صرف غریبوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جن ایک سو دس بڑے بڑے اداروں کو ٹیکس سے مکمل چھوٹ دی گئی ہے اسے فوراً ختم کرنا چاہئیے اس لیے کہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں بہت زیادہ فرق ہے ہم تیس روپے کما کر سو روپے خرچ کررہے ہیں ۔ حکومتی اخراجات کی کوئی حد ہی نہیں ہے ۔ہر برس حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ دنیا میں ترقی کا سائیکل دیکھیں تو ترقی یافتہ ممالک نے سب سے پہلے حکومتی اخراجات کم سے کم تر کردئیے اور ہر شعبہ کو آوٹ سورس کردیا ہے ۔ مگر یہاں ایک کام کے لیے سو بندے رکھے ہوئے ہیں اور وہ کام پھر بھی نہیں ہوتا جبکہ یہی کام پرائیویٹ سیکٹر میں ایک یا دو لوگ سرانجام دیتے ہیں اور پوری دیانت داری اور پروفیشنل ترتیب سے سرانجام دیتے ہیں ۔ یہ جو حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں ملازم رکھے ہوئے جن میں سے نوے فیصد سیاسی بھرتیاںہیں وہ لوگ ہیں جن کو جس مقصد کے لیے ملازم رکھا گیا ہے وہ اس کام کی الف بے تک سے واقف نہیں ہوتے ۔حکومت کا کام
نوکریاں دینا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ جس ملک کو سالانہ نو ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی اور سود میں دینے ہوتے ہیں اس ملک میں حکومت نے اپنے کارندوں کو کھربوں روپے کی لاکھوں گاڑیاں ، پیٹرول ، ڈرائیور، سیکیورٹی گارڈ ، خانسامے ، چپڑاسی ، چوکیدار اور درجنوں دیگر لوگ دئیے ہوئے ہیں جن کا تصور سلطنت برطانیہ کے عروج کے دور میں بھی کوئی نہیں کرسکتا تھا ۔ایک ہی کام کے لیے یہاں تین تین وازرتیں ہیں ۔موسیمیاتی تبدیلیوں کے لیے ایک وزارت بھی ہے جس میں سینکڑوں لوگ ایک سکرٹریٹ میں کام کرتے ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں اور ان میں سے کتنے لوگوں نے کلائمٹ چینج میں ڈگری حاصل کی ہے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ سینکڑوں لوگ کیا کررہے ہیں ۔ یہی حال ہر وزارت کا ہے ۔ اس وقت پاکستان بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں جب مریض جاتے ہیں تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر انہیں پرائیویٹ آپریشن کا کہتا ہے وہ ڈاکٹر جو لاکھوں کی تنخواہ لے کر ہسپتال میں دو آپریشن دن کے نہیں کرتا وہ پرائیویٹ کلینک یہ پھر پرائیویٹ پریکٹس میں اسی ہسپتال میں دن میں درجنوں آپریشن کرتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں چترال سے ایک مریض آنکھوں کے علاج کے لیے پشاور آیا ۔میں اسے لیکر خیبر ٹیچنگ ہسپتال گیا ڈیوٹی پر سینئر ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور فوراً کہا کہ اس کا آپریشن کرنا ہوگا ، تو میں نے کہا کہ کردیں اس پر اس نے کہا کہ یہ آپریشن ہسپتال میں نہیں ہوسکتا یہ پرائیویٹ کرنا ہوگا اس پر اس مریض کا ایک لاکھ سے زیادہ خرچہ آئے گا ۔ میں نے پوچھا کہ ہسپتال میں کیوں نہیں ہوسکتا ۔ تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ایک تو ہسپتال کی آپریشن والی مشین خراب ہے ۔اور دوسرا اس مریض کا نمبر چار ماہ بعد آئے گا ۔ جب میں نے پوچھا کہ اس مشین کے ٹھیک کرنے پر کتنا خرچہ آئے گا تو اس نے کہا کہ تیس چالیس ہزار روپے کا خرچہ ہوگا ۔یعنی جس ہسپتال پر حکومت نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں اور کررہی ہے وہاں زمانے سے آپریشن کرنے والی مشین خراب ہے ۔ اور اس کا سہارا لیکر ڈاکٹر صاحبان مریضوں کو پرائیویٹ آپریشن کی طرف راغب کرتے ہیں ۔ جب میں نے کہا کہ صحت کارڈ کے ذریعہ کردیں تو اس سے ڈاکٹر صاف انکاری ہوئے ۔ میں نے پوچھا
کہ آپریشن کب تک ہوگا تو ڈاکٹر نے فوراً کہا کہ چار بجے لے آئیں اسی وقت ہوجائے گا ۔ میں مریض کو لے کر ایک اور ڈاکٹر کے پاس گیا جو پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہے اس نے معائنہ کیا اور الٹر ساونڈ کرنے کے بعد کہا کہ مریض کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے ۔ایک انجکشن کا کہا یہ ایک ہفتے لگائیں ٹھیک ہوجائے گا ۔ جب میں نے اس خدا ترس ڈاکٹر سے کہا کہ پھر اتنے بڑے ہسپتال میں بیٹھے ڈاکٹر ز آپریشن کیوں تجویز کرتے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کا آسان ترین طریقہ ہے جو ان کے ہاتھ آگیا ہے ۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ بچوں کی ڈیلیوری والے کیسوں میں سیزرئین کروا کر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اب پتہ چلا یہ سلسلہ آنکھوں کے آپریشن تک آگیا ہے ۔ یہ ہے وہ ہماری اخلاقی حالت جس میں کسی بھی مریض تک کو نہیں بخشتے ۔ اسلام آباد کے ایک مشہور ہسپتال جسے موجودہ بجٹ میں ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ اس میں ایک دفعہ ایک مریض کے دل کا آپریشن ہوا تھا ا س کے مزاج پرسی کے لیے گئے ایک اور بزرگ بھی وہاں مزاج پرسی کے لیے آئے تھے ۔ ان بزرگ نے مجھے کہا کہ یہاں میرا بی پی چیک کروا دیں میں اسے لیکر وہاں کاونٹر پر گیا اور ان سے کہا کہ اس کا بی پی چیک کروادیں ۔ پندرہ منٹ بعد کاونٹر پر موجود عملے نے ہمیں پچیس ہزار کا بل تھما دیا ۔ جب پوچھا کہ یہ کس بات کا بل ہے تو اس میں انٹری فیس ، کارڈ فیس ، معائنہ فیس ، بیڈ فیس ، ڈاکٹر فیس ، نرس فیس ، رپورٹ فیس اور ڈسپوزبل کٹ فیس وغیرہ شامل تھے ۔ جبکہ نہ تو اس بزرگ کو کسی ڈاکٹر نے چیک کیا تھا صرف بی پی مشین لگا کر ایک نرس نے کاغذپر لکھ دیا تھا کہ یہ بلڈ پریشر ہے ۔ ایسے قصابوں کو ٹیکس معاف کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جو کماتا ہے اس سے ٹیکس لیا جائے اور جن کی اسطاعت نہیں ہے ان پر وہ رقم خرچ کی جائے یہاں سب الٹا ہورہا ہے ۔یہ ہسپتال اس وقت تک میت نہیں دیتے جب تک آپ ان کے لاکھوں روپے نہیں دیتے ۔ اگر کسی کو شک ہو تو کسی دن ان پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں یا جنہوں نے وہاں سے علاج کروایا ہے ان سے تفصیلات پوچھ لیں ۔
