کچھ عرصے سے ملک میں عجیب سا ٹرینڈ چل پڑا ہے، کسی نہ کسی لڑکی، ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا اسٹار کی خودکشی ،قتل یا پھر نامناسب ویڈیو لیک ہو جاتی ہے۔جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پر ہتک عزت، کاروبار، نقصان، عشق میں ناکامی پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے۔ جبکہ اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم بھی جاپان سے کم نہیں ہے،آئے روز خودکشی کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے، جن کی خبریں آپ اخبارات اور مختلف نیوز چینلز سے دیکھتے اور سنتے ہیں ۔ چند دنوں سے ایک لڑکی کی ویڈیو جسے فیس بک ، دوسرے پلیٹ فارم بشمول ٹک ٹاک پر زیر گردش ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں نامعلوم افراد نے17سالہ ٹک ٹاکر کو فائرنگ کر کے قتل کردیاگیا۔ بد قسمتی سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ اگر سوشل میڈیا ایپس ریگولیٹ نہیں ہو سکتیں تو ان کو بند کر دینا چاہیے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی سوشل میڈیا بے لگام نہیں ہے۔مسلم معاشرہ ہو یا کوئی اور گروہ، دین ہر جگہ کچھ اصول و ضوابط لاگو کرتا ہے اور سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب چینل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اب ایسے افراد حاوی ہوتے جارہے ہیں جن کو اخلاقیات، شائستگی اور ذمہ دارانہ رویوں کی کوئی آگا ہی نہیں۔ اس کے بر عکس ماضی میں ذرائع ابلاغ پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور ہر معاشرہ اپنے مہذب اور ثقافتی رجحانات کے اعتبار سے ذرائع ابلاغ کو فروغ دیتا تھا۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو معاشرتی و سماجی بہتری اور نکھار کا یہی ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ سے تیز تر ہے۔ لیکن ، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بندر کے ہاتھ میں چھری ہو تو اس کا نفع بخش استعمال نہیں ہوتا۔خاص طور پر والدین سے درخواست کرتا ہوں کیونکہ آ ج کل سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پانے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے ، خواہ اپنی ثقافت و اقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ نپولین نے ایک خوبصورت مثال دے کر سمجھایا تھا کہ اگر ہرنوں کے غول کی قیادت شیر کررہا ہو تو ہرن بھی جنگ کرنا یا لڑنا سیکھ جاتے ہیں ، لیکن اگر شیروں کے گروہ کا لیڈر ہرن ہو تو شیر اپنا دفاع بھول کر ہرنوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔ گویا بہترین معاشرتی ترقی کے لئے یہ احتساب ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر کون لوگ افرادِ معاشرہ کو متاثر کررہے ہیں ۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا ۔ ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی لپیٹ میں صرف نوجوان ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ ان منفی اثرات نے بچوں سے بھی ان کی معصومیت چھین لی ہے ۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دینے کے سبب ہم روزمرہ کاموں اور عبادت کو بہتر انداز میں نہیں کررہے ہیں اور ایک عجیب غفلت کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔اس سے ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے حالات با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی آزاد ہے، کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں۔ اس معصوم بچی کے وحشیانہ قتل کی سب سے بڑی وجہ ٹک ٹاک ہے۔کبھی”غیرت کے نام پر قتل کا شاخسانہ ہے تو کبھی ٹک ٹاکر خودکشی ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس پر اکثر معاشرے میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔جب بھی سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں تو ٹک ٹاک اسٹار نے محض 16 برس کی عمر میں خودکشی کرلی،17 برس میں خود کشی کرلی،اہلخانہ کے مطابق وہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا تھیں وغیرہ وغیرہ۔اور اکثر جب ہم ان کے اہلخانہ سے پوچھتے ہیں تو خودکشی سے متعلق ٹک ٹاک اسٹار کے اہلخانہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ کئی روز سے شدید ڈپریشن میں مبتلا تھیں اور جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتانے سے انکار کردیا تھا وغیرہ۔یاد رہے!جب والدین دولت کی محبت کی مریض ہو جائے تو اس سے بچوں کی زندگی میں جتنا بھی فساد برپا ہوجائے،کم ہے۔دنیا کی یہ حرص وہوس ایسی ہے جو فردوافراد کی اخلاقی وروحانی زندگی کی بربادی کے لیے کافی ہے۔تعلیم تو اسکولوں سے ملتی ہے مگر تربیت اچھی یا بری والدین کی ذمہ داری ہے۔آج کا نوجوان کہاں کھڑا ہے،لباس ہو یا طور طریقے،چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز ان کی تمام حرکات قابل مذمت اور قابل افسوس ہوتے ہیں لیکن ان سارے معاملات میں صرف یہ نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے ،جنہوں نے آپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے آپنے دین کی اعلی قدروں اور دینی روایات سے بیزار ہیں۔،اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں ۔ان کے انداز گفتگو،ان کے فکرو نظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی ۔اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں آپنے آپنے فطری مقام سے گرگئے۔اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔لڑکیاں جینز ،ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے،بالوں کی پونی بنائے ،کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دینے دکھائی دیتے ہیں۔کوئی ماں باپ نہیں کہتا کہ میری اولاد بگڑ گئی ہے۔میرا لڑکا یا لڑکی آوارہ یا بد چلن ہے۔میں بھی برا نہیں ہوں،اپ بھی برے نہیں ہیں تو پھر معاشرے کا ناسور کون لوگ ہیں ؟ یہ کس دنیا کی تربیت یافتہ ہیں؟میرے پیارے نوجوانوں اور خاص طور پر والدین ،میرے ان سوالوں کا جواب شاید سب کے پاس ہو مگر ان کا جواب کوئی نہیں دے گا،لیکن میرے پیارے جوانوں اس سے پہلے کہ کل کوئی آپ سے یہی سوال کرے اور آپ اس کا جواب نہ دے سکیں تو براہ کرم ابھی وقت ہے سنبھل جا ئیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خوبصورت پھولوں کو کلاشنکوف سے دور رکھیں اور وہ سکون کی تلاش میں اس زہر سے دور رہیں تو خدا کے لیے اپنا محاسبہ کیجئے۔سوال یہ ہے کہ آج پھر اسے شمع محفل کس نے بنایا ہے؟ صرف یہودیوں نے ؟ آج پھر اسے گھر کی ملکہ کی بجائے لوگوں کی ٹھوکروں میں کس نے ڈالا ہے ؟آج پھر اسے زندہ درگور کرنے والی چیز کون بنا رہا ہے ۔ انسانی ذہن صرف عیاشی کی طرف جھکتا ہے ۔ہمارے اردگرد کیا کچھ نہیں ہوتا ، ہمارے جوانوں کے روزمرہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔
