تہران تا واشنگٹن ‘ تشکر پاکستان

ایوان ہائے ایران سے تشکر تشکر پاکستان کی گونج کے بعد قصر سفید واشنگٹن میں صدر امریکہ کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم سے مشاورت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ واشنگٹن خطے کے معاملات اور حالات بارے پاکستان کے کردار کی اہمیت کا قائل ہے حربی میدان سے لے کر عالمی سربراہی سطح تک پاکستان کی خدمات اور امن پسندی کا اعتراف وہ کامیابی ہے قوم کو مطمئن ہونا چاہئے کہ پاکستان کی سمت درست ہو گئی ہے سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کٹہرے میں کھڑا پاکستان اب نہ صرف ا قوا م عالم کی صف میں سربلند کھڑا ہے بلکہ اب پاکستان کے کردار کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جانے لگا ہے ۔یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی جب برادر اسلامی ملک ایران پر اسرائیل کی جانب سے جنگ مسلط کر دی گئی ہے ایران پوری حربی صلاحیت کے ساتھ اسرائیل کو مسکت جواب دے رہا ہے اور اسرائیل ہاتھ کھڑے کرنے تک آگیا ہے نہ صرف یہ بلکہ امریکی صدرٹرمپ کی دھمکیوں کا بھی ایران نے نہ صرف اثر نہ لیا بلکہ ایران نے تابڑ توڑ حملوں سے اس کا جواب بھی دے رہا ہے اس ساری صورتحال میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ اور صدر امریکہ کی ملاقات کا محور ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہی مرکزی موضوع رہا ہو گا اور دونوں کے مشترکہ رجحانات قیام امن کی مساعی رہنا فطری امر ہے جس کا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یبان میں بھی کیا ہے خطے میں امن و ا ستحکام کی بحالی وہ متفقہ موقف اور لائحہ عمل ہے جس پر سوائے اسرائیل اور بھارت کے دیگر اقوام عالم کا اتفاق ہے گوکہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کچھ ”ہوائی فائرنگ” ضرور ہو چکی تاہم ایرانی قیادت کا عزم صمیم اور پوری قوت سے دفاع اور حملے وہ جواب ہیں جس کے بعد موقف میں نرمی اور رجوع کا رجحان امریکی قیادت کی جنگ میں کودنے کی غلطی کی بجائے جنگ بندی ترجیح نظر آتی ہے ۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ جانے کے بعد امریکی پالیسی اور رویہ میں تبدیلی ایک مثبت امر ہے قبل ازیں وائٹ ہائوس سے ہماری بات مانو ورنہ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیئے جائو گے قسم کے پیغامات آتے تھے جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے خود ان کی دعوت پر ملاقات ان کے پیشرئو فوجی حکمران جرنیلوں سے مختلف ہے جس کے پیچھے انسداد دہشت گردی میں تعاون ‘ خفیہ سفارتکاری اور ہدفی لابنگ کار فرما نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں پینٹا گون اور سینٹ کام کے حلقوں میں پاکستان کا تاثر ایک سیکورٹی خطرے کی طور پر نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کے ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر ابھرا جو صرف سفارتی پل اور کوششوں سے بڑھ کر ہے یہ سارا عمل روایتی سفارتی سرگرمیوں سے جداگانہ اور جامع حکمت عملی ہی سے ممکن ہوا۔ان سارے مثبت معاملات اور حوصلہ افزاء عوامل کے ساتھ ساتھ جو اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ کہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کا لائحہ عمل کیا رہتا ہے اور پاکستان نے اس جنگ میں تشکر تشکر پاکستان کے جس نعرے کی صورت میں ایرانی قیادت اور قوم کااعتماد حاصل کیا ہے اس کو برقرار رکھنے بلکہ آگے بڑھانے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے ممکنہ مشکلات کا مقابلہ کس طرح سے کیا جاتا ہے حالات میں بہتری اور استحکام میں دونوں ملکوں کے درمیان کس حد تک مفاہمانہ کردار کا مظاہرہ ہوتا ہے بلاشبہ ایران کی حمایت کا معاملہ نہایت حساس ہے مگر اس میں پاکستان کے پاس انتخاب کا راستہ ہی نہیں سوائے اس کے کہ برادر اسلامی ملک کو مشکلات سے نکالنے میں سنجیدہ کردار ادا کیا جائے اور ایرانی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے ان کی قدم قدم پر حمایت اور مدد کی جائے ساتھ ہی ساتھ اپنے عظیم دوست ملک چین کے مفادات او ر نقطہ نظر کا بھی پورا پورا خیال رکھا جائے ایسے میں یہ عمل تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہو گا جس پر توازن برقرار رکھتے ہوئے ہی محفوظ طریقے سے چلنے کی ضرورت ہو گی گو کہ یہ جوئے شیر لانے کے مترادف نہیںلیکن مشکل ضرور ہے امریکہ کوبھی اس بات کا اندازہ ہو گیاہو گا کہ ڈو مور کا وقت اب گزر چکا تاہم پاکستان کی جانب سے ”نو مور” کہنا باقی ہے ۔اگرچہ فوری طور پر یہ ملاقات ایران اسرائیل جنگ کے موضوع کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان انسداد دہشت گردی سمیت مالیاتی مفادات و مواقع و امکانات سے دو طرفہ فائدہ اٹھانے جسے عوامل کے تناظر میں بھی یہ ملاقات اہمیت کا حامل ہے ۔اس ملاقات کے اسرار کھلنے اور اثرات سامنے آنے میں وقت لگ سکتا ہے بہرحال یہ دونوں ملکوں کے درمیان تجدید تعلقات کی ایک ایسی ابتداء ضرور ہے جس سے اچھی توقعات ہونی چاہئیں۔

مزید پڑھیں:  ''سماجی فاصلے یا عالمگیر وبائ''