صوبائی حکومت کی جانب سے مالی اخراجات کی اصل تفصیلات سامنے لانے سے اعتراض کرتے ہوئے صرف نظر ثانی شدہ بجٹ پیش کرنے کا عمل شکوک و شبہات سے خالی نہیں مثال صوبائی حکومت نے روان برس کے 11 ماہ کے اخراجات کی تفصیلات بجٹ دستاویز کا حصہ بنانا سرے سے ضروری ہی نہیں سمجھا، اس تناظر میں حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے صوبائی حکومت کے بجٹ کو محض دھوکہ دینا قرار دینا اگرچہ پوری طرح سے صورتحال پر انصاف پر مبنی مؤقف نہیں، تا ہم بے وزن بھی نہیں جس کا موقع خود صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے، ایک جانب جہاں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے بابانگ دہل کہا تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ وفاق کو بھی قرضہ دے سکتا ہے اور دوسری جانب بجٹ کی تفصیلات ہی خفیہ رکھنا دو ایسے متضاد افعال ہیں جس کی بہتر تشریح اور وضاحت صوبائی حکومت ہی کر سکتی ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ رازداری برتنے کا عمل بلاوجہ نہیں بلکہ اس سے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت صرف میزانیہ ہی پوشیدہ نہیں رکھ رہی ہے بلکہ اخراجات اور شفافیت بھی شاید اختیار نہیں کی گئی ہے ورنہ ضمنی بجٹ پیش کرنا اور اضافی اخراجات کی ایوان سے منظوری کوئی پہلی دفعہ کا عمل نہیں بلکہ وفاق اور صوبوں میں ایسا ہونے کا معمول ہے ،صوبائی حکومت کو اس امر کی وضاحت کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ ان کو اس طرح کے عمل کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کی توجیہ کیا ہے، بجٹ کوئی قومی راز نہیں اور نہ ہی اخراجات خفیہ فنڈز کے استعمال کے زمرے میں آتے ہیں تو پھر بلاوجہ ایسا ایسی روایت کیوں قائم کی گئی ہے جو آئندہ کیلئے بھی ناپسندیدہ راستہ اختیار کرنے کی راہ ہموار کرنے کا باعث ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں شکوک شبہات دور کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا جائیگا اور ساری تفصیلات ایوان اور میڈیا کے سامنے پیش کر کے حکومت اپنی نیک نیتی اور شفافیت ثابت کر دے گی۔
