ریگی ٹاؤن نظام کا بدنما داغ

گیارہ جون 2024ء یعنی ٹھیک ایک برس پہلے میں نے انہی صفحات پر ریگی ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کس سے انصاف مانگیں کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں تفصیل کیساتھ ریگی ماڈل ٹاؤن کے مسئلہ اور متاثرین کی بے بسی کا احاطہ کیا تھا۔ آج ایک برس گزرنے کے بعد بھی اس حوالے سے وقت کے صاحباں اختیار نے کچھ نہیں کیا اور وہ ہزاروں متاثرین چند دن پہلے دوبارہ پریس کلب میں اپنی فریاد لیکر صحافیوں کے سامنے آنسو بہا رہے تھے۔ ہمارا نظام انصاف کرنے کی اپنی ساری صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ سترہ ہزار لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی کسی فراڈئیے کو نہیں کسی نوسرباز کو نہیں کسی دکاندار کو نہیں بلکہ حکومت وقت کو دی تھی کہ وہ انہیں زمین فراہم کرے جس پر وہ گھر بنائیں۔دہائیاں گزر گئیں مگر حکومت وقت ان غریبوں کے پیسے اپنے اکاؤنٹ میں ڈال کر مزے کررہی ہے۔ سینکڑوں لوگ اپنے گھر کے ارمان میں انصاف مانگتے مانگتے مرگئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنہوں نے اپنی پوری پنشن پی ڈی اے کو دی تھی وہ بے گھر ہی فوت ہوگئے ان کے بچے اور بیوائیں دفاتر کی خاک چھان چھان کر اور ان دفاتر میں بیٹھے ہوئے بے حس لوگوں کے سامنے منت ترلے کرتے کرتے تھک گئے۔ان حقیقی پاکستانیوں نے کوئی در نہیں چھوڑا عدالت گئے ،سیاست دانوں کے پاس گئے فوجیوں سے انصاف طلب کی مگر ان کو کسی نے بھی انصاف نہیں دیا۔ کیا ریاست اتنی کمزور ہے کہ ان ہزاروں بے گناہوں کا یہ چھوٹا سا مسئلہ حل نہیں کرسکتی۔ پی ڈی اے کے پاس جو ان کے پیسے پڑے ہوئے اس کا حساب کون دے گا۔ اس ٹاؤن شپ کے تین بڑے زون جس کے ہزاروں آلاٹی اپنے جائز حق سے محروم ہیں وہ کس کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں۔ کیا یہ مسئلہ اقوام متحدہ یا عالمی انصاف کے فورم پر حل ہوگا۔ ہماری عدالتیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوموٹو ایکشن لیتی رہی ہیں۔ سیاست دانوں کے اْوٹ پٹانگ کیسیوں کیلئے صبح شام تیار رہتی ہیں ان عدالتوں کو یہ سترہ ہزار غریب لوگ نظر نہیں آتے کیا انصاف صرف اس ملک میں مخصوص طبقے کا حق ہے۔ ریگی ماڈل ٹاؤن کے دو دہائیوں بعد اس کے اطراف میں کئی ایک ہاوسنگ سوسائٹیاں بن گئیں لوگ وہاں گھر بنا کر رہ رہے ہیں۔یہ کسی ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سترہ ہزار خاندانوں کا مسئلہ ہے۔یہ سب وہ لوگ تھے جو اپنی تنخواہوں میں سے پائی پائی بچا کر اپنا گھر بنانا چاہتے تھے۔ ان میں سینکڑوں پولیس کے شہداء بھی ہیں جن کے بیواؤں اور بچوں کو یہاں پلاٹ دئیے گئے مگر کیا فائدہ وہ جو افسران اور حکمرانوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کیلئے جان دے گئے تھے ان حکمرانوں اور افسران نے ان کے بچوں اور بیووؤں کو دفاتر میں ذلیل کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور ان کا جائز حق دینا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ ان لوگوں کا دکھ کچھ کم ہوتا اگر کسی حکومت یا عدالت نے اس کوتاہی یا شعوری کرپشن میں ملوث کسی شخص کو سزا دی ہوتی کسی کو مورد الزام ٹھہراتے مگر اس جرم میں شریک جتنے بھی لوگ ہیں وہ سب اربوں کے مالک ہیں عدالتوں کو چاہئیے تھا کہ وہ اس ظلم پر اپنا کمیشن بناتے اور حکومت کو مجبور کرتے اور ان سائلین کا مسئلہ حل کرتے۔ ہماری بڑی عدالتوں تک رسائی ان سترہ ہزار خاندانوں کی بس کی بات بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس مقصد کیلئے مزید لاکھوں روپے درکار ہیں اور پھر نظام انصاف اتنے سست روی سے چلتا ہے کہ جو ان الاٹیز میں سے زندہ بچے ہیں وہ بھی عدالت کی شنوائی تک مرکھب جائیں گے۔ سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کے ایسے سینکڑوں اساتذہ کو میں جانتا ہوں کہ وہ اس ریگی ماڈل ٹاؤن میں اپنا جائز حق نہ ملنے کی وجہ سے شوگر اور دل کے امراض میں مبتلا ہوئے ان غریبوں نے اس ٹینشن کی وجہ سے اپنی صحت کھودی۔ پچھلے برس جب میں نے کالم لکھا تھا تو کئی عمررسیدہ بیواؤں نے میرے دفترآ کر مجھے دعائیں بھی دیں اور جو اپنی حالت زار بتائی تو میرے آنکھوں میں آنسو آگئے۔حکومت نے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنی تمام عمر کی کمائی لگا کر ریگی ماڈل ٹاؤن میں پلاٹ لیا تھا استحصال کیا ہے اور مسلسل کررہی ہے۔ان چار دہائیوں میں ہزاروں بیوروکریٹس ،سیاست دان ، جج صاحبان پشاور میں صاحب اختیار رہے مگر کسی ایک نے اپنا فرض پورا نہیں کیا۔ریگی ماڈل ٹاؤن کے تین زونز میں پلاٹوں کا کوئی نام ونشان تک نہیں باقی دو زونز میں سینکڑوں پلاٹ ابھی تک لوگوں کے حوالے نہیں کیے گئے مگر پی ڈی اے اور ایف بی ار ان کی خرید و فروخت پر پیسے اور ٹیکس لے رہے ہیں۔کیا کسی عدالت یا حکومت نے ان سے پوچھا ہے کہ جب پلاٹ کسی کو دیا ہی نہیں گیا تو کیسے اس کو دوسرے بندے کو ٹرانسفر کرکے وہ پیسے وصول کررہے ہیں۔ان چار دہائیوں میں صرف فائلوں کے ٹرانسفر پر جو پیسے ان اداروں نے لئے ہیں ان کا حساب کیا جائے تو وہ بھی اربوں روپے میں آتے ہیں۔ان متاثرین کا دکھ صرف وہ جان سکتے ہیں جنہوں نے زندگی بھر کی کمائی ان پر لگائی ہے۔ اس ملک میں انصاف تب تک ممکن نہیں ہے جب تک انصاف سب کی دسترس میں نہ ہو۔ کسی دن جاکر چیک کریں کہ حیات آباد اور دیگر پوش علاقوں میں یہ بنگلے کس کے ہیں اور ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سب کچھ ناجائز پیسے سے بنایا جارہا ہے۔ گریڈ بائیس کا بھی کوئی ملازم ان علاقوں میں پانچ مرلہ کا گھر نہیں بنا سکتا اس لیے کہ گریڈ بائیس کی دس برس کی پوری تنخواہ جمع کی جائے تو اس سے صرف پانچ مرلہ کا پلاٹ مل سکتا ہے اس کی تعمیرکیلئے اسے مزید دس برس نوکری کرنی ہوگی۔ اس لئے اس نظام میںیہ ایک کاروبار ہے جو غریبوں اور مستحقوں کے جائز پیسے پر قابض ہوکرکیا جارہا ہے۔ وہ جو ٹیکس دیتے ہیں وہ پیسے نظام میں گھوم پھیر کر ان کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں اور وہ ا ن سے عیاشی کرتے ہیں اور ایک نہیں کئی ایک پلاٹ اور بنگلے خرید لیتے ہیں درجنوں گاڑیاں خریدتے ہیں۔ان کے بچے روزانہ لاکھوں خرچ کرتے ہیں۔ریگی ماڈل ٹاؤن کے متاثر ین ان سے الگ لوگ ہیں یہ غریب وہ سرکاری ملازمین ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی صرف تنخواہ کے عوض گزار دی اور اس کے بعد گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے گھر کے ارمان میں ایک ایک کرکے مررہے ہیں۔ جس زمانے میں ان متاثرین نے ریگی ماڈل ٹاؤن میں سرمایہ کاری کی تھی اس زمانے میں اس کے اردگرد کے علاقوں میں ان پیسوں سے چار چار پلاٹ مل سکتے تھے مگر ان غریبوں نے یہ سوچا تھا کہ یہ حکومت کی گارنٹی کیساتھ ایک سرکاری سکیم ہے جس میں انہیں تحفظ ملے گا ان کے بچوں کو حفاظت اور سکون کیساتھ رہائش میسر آئیگی۔آج ریگی ماڈل ٹاؤن کے اطراف میں ایک ایک پلاٹ کروڑوں کا ہے مگر وہ لوگ جو حکومت کو اپنا نگہبان سمجھ کر سرمایہ کاری کر بیٹھے تھے وہ خوار ہورہے ہیں۔ جس ملک میں سترہ ہزار خاندان اپنا جائز حق چار دہائیوں میں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوں وہاں انصاف کی توقع کیسے کی جائے۔ ان چار دہائیوں میںپیپلز پارٹی ، مسلم لیگ، جمعیت علمائ،جماعت اسلامی ، نیشنل عوامی پارٹی اور گزشتہ بارہ برسوں سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے یہ لوگ منتخب لوگ تھے اور ہیں۔مگر انہوں نے ان سترہ ہزار خاندانوں کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ کیا ان تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اس بات کا کوئی اخلاقی جواز ہے کہ وہ ان کا ووٹ لیکر اسمبلیوں میں آئے حکمران بنے اور وہ ان متاثرین کو ان کا جائز حق نہ دے سکے۔ کیا یہ سب ناکام لوگ نہیں ہیں۔ان حکومتوں میں رہنے والے تمام لوگوں کی جائیدادیں چیک کی جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی مگر ان کی کارکردگی دیکھیں تو شرم آتی ہے۔ اس حلقے سے بننے والے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے اس حوالے سے۔ان ادوار میں پی ڈی اے کے سرکردہ لوگوں کے پاس کوئی جواز ہے ، ان ادوار میں کمشنر پشاور ، ڈپٹی کمشنر پشاور جوجو رہے ہیں ان کے پاس کوئی جواب ہے۔ یہ جس وازرت کے نیچے آتا ہے اس وزارت پر رہنے والوں کے پاس کوئی جواب ہے۔ جو ضلعی حکومتیں بنیں ان کے پاس کوئی جواب ہے۔ کیا پشاور کی سول سوسائٹی کے پاس کوئی جواب ہے۔ سچ پوچھیں تو اس معاشرے میں ہم سب بے حس ہوچکے ہیں ہمیں اپنے اردگرد لاکھوں لوگوں کا دکھ نظر ہی نہیں آتا ،ہمیں ان بے بس لوگوں کا المیہ متاثر ہی نہیں کرتا۔اس دور میں یتیموں کی بددعائیں میں بھی اثر نہیں رہا۔شہیدوں کے بچوں کی فریاد بھی کاریگر نہیں ہوتی۔ پشاور کی انتظامیہ اور حکومت اور پی ڈی اے کے چہرہ پر جب تک یہ بدنماداغ موجود ہے تب تک ان کی اخلاقی اور ملازمتی کارکردگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔