شادی کے حوالے سے کئی منفرد اور دلچسپ واقعات آئے دن پاکستان اور پڑوسی ملک بھارت میں رونماء ہوتے رہتے ہیں جو میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔نکاح انسانی فطرت کے ایک ضروری تقاضے کو جائز طریقے سے پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر اس جائز طریقے پر رکاوٹیں عاید کی جائیں یا اس کو مشکل بنایا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ بے راہ روی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اس لئے کہ جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کرنے کیلئے جائز راستے بند پائے گا تو اس کے دل میں ناجائز راستوں کی طلب پیدا ہوگی،جو انجام کار معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنے گی۔اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے موجودہ معاشرتی ڈھانچے نے اسے اتنا ہی مشکل بنادیا ہے۔نکاح کے بابرکت بندھن پر بیشمار رسومات،تقریبات اور فضول اخراجات کے ایسے بوجھ لاد دئیے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے شخص کیلئے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا ہے اور اس میں اکثر اور بیش تر ایسی رسومات کا ارتکاب کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔صوبہ سندھ کے خاص رواج کے مطابق شادیوں میں نکاح کے بعد آدا کی جانیوالی رسم لانوا میں میاں بیوی کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کا سر ایک دوسرے سے دھیرے دھیرے ٹکرایا جاتا ہے۔اس طرح نئی نویلی دلہن کے ہاتھ میں کھیر رکھ کر گھر والوں کو کھیر ایک چھوٹے سے کھیل کی صورت میں اس طرح کھلائی جاتی ہے کہ اس میں نند اپنی بھابھی کا ساتھ دیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ کھیر کھانے والے آسانی سے نہ کھا سکیں۔اس طرح نوک جھونک کے دوران نند اپنی بھابھی کی سپورٹر ہوتی ہے اور یہ دوستی کی علامت بتائی جاتی ہے۔اس طرح موہاڑی ایک قدیم رسم ہے جس میں جب لڑکی بیاہ کر سسرال جاتی ہے تو وہ گھر میں داخل ہوکر پہلے چوکھٹ تھامتی ہے،جس کے بعد سسر اپنی بہو کو منہ دکھائی اور دعا دیتے ہیں،ہزارہ برادری میں دلہن کی بیلٹ میں پیسے،اناج اور چاقو رکھتے ہیں.آج کل معاشرے نے شادی بیاہ کو مہنگا کردیا ہے،حالانکہ میں اگر مبالغہ کرتے ہوئے کہوں کہ نکاح تو بالکل مفت ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ پیسے نہ ہوں تو نکاح بھی نہیں ہوگا ایسا نہیں ہے البتہ نکاح میں مرد پر مہر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اس کے بھی مقدار شریعت میں کم سے کم دو تولے سونا اور ساڑھے سات ماشے چاندی یا اس کی رقم ہے جو کہ آج کل کے حساب سے چند ہزار روپے بنتی ہے۔زیادہ مہر کی کوئی حد بیان نہیں ہوئی مگر اتنا زیادہ بھی مقرر نہ کیا جائے کہ وہ مرد پر بوجھ بنے۔دعوت ولیمہ سنت ہے،ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست واحباب ،عزیز واقارب اور محلے کے لوگوں کی حسبِ استطاعت ضیافت کرے۔ولیمے کیلئے بھی کوئی ہال بک کروانا ضروری نہیں۔آج کل بہت برا حال ہے منگنی،مہندی،رخصتی،اور ولیمے وغیرہ تقریبات میں جو اللہ رسول کو ناراض کرنیوالے کام کئے جاتے ہیں ان کا شمار ہی نہیں،ان کے علاوہ لڑکی والے لڑکے والوں سے جو طرح طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں یہ ایک الگ دنیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق معاشرے میں جہیز کی لعنت کے باعث لاکھوں خواتین کی ابھی تک شادی نہیں ہوسکی۔آج کل امت مسلمہ میں جہیز کی شرائط نے ازدواجی رشتوں کیلئے سنگین مسائل پیدا کر رکھے ہیں،جہیز کی رسمیں قرآن وسنت کی تعلیمات سے انحراف کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔مطلوبہ جہیز نہ ہونے کی بنا پر کئی لڑکیاں والدین کے گھر بوڑھی ہوجاتی ہیں اور جن کے رشتے ہو جاتے ہیں ان کے والدین بھاری جہیز کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔حرص وہوس پر مبنی رشتے اکثر دیرپا ثابت نہیں ہوتے،بعض اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔جہیز کی ان رسموں کے آسیب نے شہروں سے نکل کر دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بقول شاعر!
دیہات میں جہیز کے بھوتوں کو دیکھ کر
دہقان کو بیٹیوں کی جوانی سے ڈر لگا
آج جو صورت حال درپیش ہے اور آج سے نہیں پچھلے دس پندرہ سال سے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہر آنیوالا دن،ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لیکر آتا ہے۔آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دوچار نہ ہو۔فرد کے ذاتی کردار اور تربیت کا معاملہ ہو،گھر کے اندر ماں اور بچوں کے درمیان کا معاملہ ہو،میاں بیوی کے تعلقات کا معاملہ ہو،گھر کی خواتین کے رویے کا معاملہ ہو،تعلیم و تربیت کا معاملہ ہو ان میں سے ہر چیز آج براہِ راست مغربی حملے کی زد میں ہے۔اسلام عورت کو مرد
کیساتھ کھلم کھلا میل جول سے منع کرتا ہے اس سے عورت مرد کیلئے لذت اندوزی کا کھلونا بن کر رہ جاتی ہے۔اس سے وقار واعتبار جیسے اوصاف چھن جاتے ہیں۔یہ منظر نامہ آج کل یورپ اور امریکہ کیساتھ ساتھ پاکستان میں بھی عام دکھائی دیتا ہے۔خاتون جنت کے رشتہ ازدوآج کو دیکھا جائے تو نہایت وقار اور سادگی سے سر انجام پایا۔ امیرالمومنین کی زرہ بیچی گئی اور پانچ سو درہم سے گھر کی بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدی گئیں۔عقد،مہر اور رخصتی کے سب مراحل انتہائی سادگی سے طے پائے۔پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود شادی بیاہ میں زیورات چڑھانے کا رواج ختم نہیں ہوا۔سونے پے سہاگہ اب تو دولہا کی شیروانی بھی ہزاروں اور لاکھوں میں بننے لگی ہے۔غرارہ اور شرارہ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑتا ہو اس پر بھی لاکھ اور دو لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔اس طرح بھارت میں پچھلے دنوں امبانی خاندان نے اپنے بیٹے اننت امبانی کی شادی پر اتنا پیسہ بہایا کہ اسے بھارت کی مہنگی ترین شادی بنا ڈالا۔کاش آج امت مسلمہ اس عقد مقدس سے درس لیتے ہوئے اپنے لئے سہولت اور عافیت کا راستہ اختیار کرے۔مسلمان خوشنودی خدا کے پیشِ نظر آپس میں رشتے کریں تاکہ وہ خیروبرکت کا باعث ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مل جل کر جہیز کے نام پر ڈیمانڈ کے اس ناسور کو ختم کرنے اور شادیاں آسان کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
