جب بھی اپنے مْلک کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے کوئی تحریر پڑھی جائے یاکسی کی بات سنی جائے تو چند مرتب شدہ اصطلاحیں، معروف نعرے اور ترتیب دئیے ہوئے بیانیے خوب دہرائے جاتے ہیں۔ سکول کی درسی کتابوں سے لے کر حکمرانوں کے بیانات تک ”نظریہ پاکستان” کے تحفظ اور اس کے نفاذ میں ہر دم کوشاں رہنے کی تلقین شامل رہتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں ایک اکثریت نظریہ کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہے۔ مْلک کے آزاد ہونے کی تاریخ جس انداز سے پڑھائی جاتی ہے اور آزادی کی جو من پسند تشریح اب تک جاری ہے ،اس کے نتیجہ میں ریاست کے وجود کا مقصد ، اس کے پیچھے اصل اسباب و واقعات اور نئی مملکت میں کسی نظام کی بات کو مبہم کر دیا ہے۔ کبھی نظریہ کو مذہب سے جوڑ دیا گیا تو کبھی اس سے انحراف کو غداری کا نام دیا گیا۔ اسی باعث پاکستانیت کے حوالے سے ایک معروف جذباتی مقر ر نے یومِ پاکستان کی تقریب میں جب یہ کہا کہ پوری دْنیا میں واحد ہمارا مْلک ہے جو نظریہ رکھتا ہے ورنہ کیا آپ نے کبھی نظریہ امریکہ،نظریہ چین یا جاپان اور نظریہ بھارت کا نام سنا ہے۔ایسے میں تمام حاضرین نے جذبات میں آکر پاکستان کا مطلب کیا۔۔لا الہ الااللہ کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ دانشورہوں یا اہل سیاست،کوئی بھی نظام کی بات نہیں کرتا کہ اس ریاست کے وجود کا مقصد ایک خوشحال معاشرے کا قیام تھا جہاں تمام وسائل پر عوام کی دسترس ہو اور یہاں ہر طرح کے عقائد رکھنے والوں کو تحفظ حاصل ہو۔ریاست عوام کے جان ومال کی حفاظت کے ساتھ ان کی بنیادی ضروریات کے حق کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے عوام تک اس کی رسائی کو یقینی بنائے۔آزادی کے اتنے برس بعد بھی اگر ہم موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اقتصادی ،جمہوری ، علمی ،سائنسی وتکنیکی پس ماندگی اور فرقہ واریت سے نجات پانے کی بجائے عوام محض نعروں اور بیانیوں کے چکر میں اْلجھی ہوئی ہے۔ تاریخ کااگر حقائق کے پس منظر میں مطالعہ کیا جائے تو قیام پاکستان کے وقت کسی نظریہ پہ بحث ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت مسلم لیگ کے منشور ،تحریک پاکستان کے دوران اورآزادی کے بعد تک نظریہ پاکستان کی اصطلاح سامنے نہیں آتی تو پھر یہ اصطلاح کب وجود میں آئی۔ مْلک آزاد ہوا تو قرارداد مقاصد دو سال بعد منظور ہوئی ، یہاں بھی یہ اصطلاح یا نعرہ سننے کو نہیں ملا بلکہ 1956 اور 1962کے آئین میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔پہلی بار جنرل یحیٰی کے زمانے میں اس اصطلاح کا خوب چرچا ہوا جب ان کی کابینہ کے وزیر اطلاعات و نشریات و قومی امور جنرل (ر) شیرعلی خان نے اس کے نفاذ میں بھرپور منصبی کردار ادا کیا۔ وہ جماعت اسلامی کی طرف اپناذہنی جھکاؤ رکھتے۔اسی اصطلاح کی آڑ میں سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں پر غداری کے مقدمات بھی بنے۔ بعد ازاں تو یہاں اسلام کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ،جس کے نتائج قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ ایسی سیاسی اور مذہبی اصطلاحو ں کو قانونی شکل دے کر حکمران اپنے اقتدار کا تحفظ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایسی رائج اصطلاحیں،نعرے اور من گھڑت بیانیے ہمیں پاکستان کا شہری بلکہ محب وطن ہونے میں ہرگز مانع نہیںہیں۔ ہماری وفاداری پاکستان کے وجود اور آئین سے ضروری ہے کیونکہ یہ سب کو پتہ ہے کہ الگ ریاست کے لیے جانوں کی قربانی دی گئی اور یہ کوئی کھیل نہیں۔ہماری نسل کو ایسے ابہام میں رکھا جا رہا ہے کہ یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی،اب ایک تہوار یا جشن کی صورت منایا جانے لگا ہے اور حکمران اپنے مفاد میں قوم کونیلے پیلے دھویں چھوڑتے جہازوں کے دلفریب نظارے دیکھنے اور اصطلاحی نعرے لگانے پہ مجبور کیے رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس دن تو عوام کو اپنے حکمران طبقے کا سالانہ احتساب کرنا چاہیے کہ مملکت کے امور کیسے طے ہو رہے ہیں اور عوامی خواب ابھی تک پورے کیوں نہیں ہوپاتے۔ قیام پاکستان کے بعد اس قدر تضادات پیدا ہوئے جس سے مْلک کی نظریاتی سمت درست نہیں ہو پاتی ، جمہوریت اورمْلکی سیاست ابھی تک یرغمال ہے۔ سیاسی حکومتیں آئینی گرفت میں پھنس جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے ریاستی خدو خال کو بڑے واضح طور پہ قوم کے سامنے ہونا چاہیے۔آئین پاکستان کی رو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے۔ یہاں آئین پاکستان کا درجہ سب سے بڑا ہے۔ یہ وہ کڑی ہے جس کی وجہ سے ہم سب قائم ہیں۔ اسی وجہ سے لوگوں کے حقوق ہیں اسی وجہ سے اداروں کا وجود ہے اور اسی وجہ سے پارلیمان ہے۔اگر آئین کی بدولت بنیادی انسانی حقوق کا تصور ہمارے ذہنوں میں ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ جنہوں نے آئین کو مسخ کیا تھا ، آج وہ کہاں ہیں۔ ہم کیونکر مفاد پرستوں کے مفادات کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ تاریخی غلطیوں کو کیسے درست کرنا ہے، آئندہ نسلوں کو صحیح حقائق سے کیسے آگاہ رکھا جائے، ان نظریاتی اْلجھنوں سے کیسے بچا جائے کہ ایک جھوٹ کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی خوف کے بغیر ان معاملات کو عوام کے اندر زیربحث لائیں اور تاریخ میں جو غلطیاں اور خرابیاں ہوئی ہیں انہیں بغیر کسی تعصب کے درست کرنے کی جانب رضامندی کا اظہار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ الجھے ہوئے معاملات صحیح سمت نہ چل نکلیں۔
